5000 دن: وی بی ایم پی کی انصاف کے لیے غیر متزلزل جستجو
ٹی بی پی فیچر رپورٹ
زارین بلوچ
بلوچ لاپتہ افراد کے لیے انصاف کا مطالبہ کرنے کے لیے ایک دہائی سے پرعزم کارکنوں کی ایک گروپ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی شدید گرمی اور ہڈیوں کی تہہ تک پہنچنے والی سردی کا مقابلہ کر رہا ہے۔ یہ افراد جنہوں نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) تشکیل دیا، جو حقوق کے لیے کام کرنے والا ایک گروپ ہے۔ انہوں نے سچائی کی تلاش میں ناقابل تصور دشواریوں کا سامنا کیا۔ جسمانی طور پر حملہ کرنے اور ہراساں کیے جانے سے لیکر غیر قانونی حراستوں اور تشدد کو برداشت کرنے تک، وی بی ایم پی کے کارکنوں نے یہ سب کچھ دیکھا ہے۔ لیکن اس طرح کی مصیبتوں کے باوجود بھی وہ ڈگمگائے نہیں۔ ہفتہ، یکم اپریل کو وی بی ایم پی کے پر امن احتجاج کو 5000 دن مکمل ہوگئے۔
کوئٹہ میں VBMP کےاحتجاجی کیمپ میں، متعدد خاندان ہر روز ایک مشترکہ مقصد کے ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان میں بوڑھی مائیں اپنے لاپتہ بیٹوں کی تلاش میں ہیں، بہنیں اپنے گمشدہ بھائیوں کو ڈھونڈ رہی ہیں، بیویاں اپنے شوہروں کے لیے تڑپ رہی ہیں، اور بیٹیاں اپنے باپ کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ کیمپ کے خیمے کی پناہ میں، وہ ایک دوسرے کی صحبت میں سکون پاتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنی جدوجہد میں تنہا نہیں ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے لڑ رہے ہیں، امید ہی وہ چیز ہے جو انہیں پُر عزم رکھتا ہے۔ ہر روز، وہ اس امید کے ساتھ جاگتے ہیں کہ حالات مختلف ہوں گے، لیکن بدستور ، سورج غروب ہونے کے بعد واپس شکستہ دلی اور مایوسی کے ساتھ لوٹ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے، بہت سے لوگ اس امید کے ساتھ چل بسے ہیں جو ان کے اندر اب بھی آگ کی طرح جل رہی ہے۔
ہر روز، وی بی ایم پی احتجاجی کیمپ میں خاندان غیر قانونی طور پر نظر بند اپنے پیاروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے علامتی بھوک ہڑتال کرتے ہیں۔ صبح سے دوپہر تک، وہ کھانا کھائے بغیر خیمے میں بیٹھے رہتے ہیں، جو ان سنگین حالات کی عکاسی کرتے ہیں جن کا سامنا ان کے پیاروں کو حراستی مراکز میں ہوتا ہے، جہاں انہیں بغیر کسی الزام یا مقدمے کے رکھا جاتا ہے۔ اپنے کھانے کی قربانی دے کر، خاندان بلوچ لاپتہ افراد کی حالت زار کے بارے میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (VBMP) کی ابتدا کا پتہ 2001 سے لگایا جا سکتا ہے جب علی اصغر بنگلزئی نامی درزی کو فورسز نے دوسری بار حراست میں لیا تھا۔ اسے دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، مگروہ ابھی تک گھرواپس نہیں آئے۔ تاہم، اکتوبر 2009 کو تین کارکنان ماما قدیر بلوچ، نصر اللہ بلوچ، اور فرزانہ مجید نے ، VBMP کی بنیاد رکھی۔ ان کے پرامن احتجاج کا آغاز کوئٹہ پریس کلب کے باہر عارضی کیمپ لگانے سے ہوا، جس میں لاپتہ افراد کی بحفاظت واپسی کا مطالبہ کیا گیا۔ کیمپ بے شمار آزمائشوں اور مصائب کے درمیان ثابت قدم رہا ہے، مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے امید اور عزم کی علامت بن گیا۔ ان کی آواز کو دبانے کی بارہا کوششوں کے باوجود، وی بی ایم پی کی لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی وکالت اور اس مسئلے کی طرف بین الاقوامی توجہ مبذول کرانے کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔
بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ VBMP کی پرامن جدوجہد میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علی اصغر بنگلزئی کو لاپتہ ہوئے دو دہائیوں سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، لیکن ان کا خاندان اب بھی ان کی محفوظ واپسی کی امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ وہ اب بھی کوئٹہ اور دیگر مقامات پر ہونے والے مظاہروں اور دھرنوں میں نظر آتے ہیں، جنہوں نے پلے کارڈ ہاتھ میں تھامے رکھ کر ان کی بحفاظت واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کے بیٹے، فاروق بنگلزئی نے اپنی بالغ زندگی کا بیشتر حصہ اپنے والد کے سائے کے بغیر گزارا ہے۔ لواحقین نے اپنی حالت زار کی طرف توجہ مبذول کروانے کے لیے متعدد پریس کانفرنسیں اور مظاہرے کیں، اور انصاف کی تلاش میں لاپتہ افراد کمیشن سے لے کر سپریم کورٹ آف پاکستان تک ہر دروازے پر دستک دی لیکن ان کی التجا پر کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ خاندان نے بنگلزئی کی “جبری گمشدگی” کو ثابت کرنے کے لیے درکار تمام ثبوت عدالتوں کو فراہم کیے ہیں، لیکن ہر بار، ان کی امیدوں کو کچل دیا گیا کیونکہ “اعلیٰ اختیارات” نے عدالتوں پر کیس میں تاخیر کے لیے دباؤ ڈال کر معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔
سمی اور مہلب کی حالت بھی اتنی ہی سنگین ہیں۔ان کے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو 2009 میں پاکستانی فورسز نے اٹھایا تھا۔ دونوں بہنیں ابھی بچے ہی تھے، جب ان کے والد لاپتہ ہوگئے: سمی کی عمر دس سال کے قریب تھی۔ اور مہلب آٹھ سال کی تھی۔ دونوں بہنیں تب سے اپنے والد کی بحفاظت واپسی کے لیے مہم چلا رہی ہیں۔ 2013 میں، 14 سے 15 سالہ سمی بلوچ لاپتہ افراد کے متعدد مظاہروں میں شامل تھی، جنہوں نے اپنی حالت زار کی طرف توجہ دلانے کے لیے کوئٹہ سے اسلام آباد تک 3000 کلومیٹر کا تاریخی لانگ مارچ کیا۔ اس نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں، قومی اور بین الاقوامی حقوق کے گروپوں سے اپیل کی، لاپتہ افراد کے کمیشن کے پاس گئی، بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹائے، اور احتجاج اور بھوک ہڑتال کی قیادت کی، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے اُس وقت کے وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری سے ملاقات کی جنہوں نے ذاتی طور پر انہیں اور دیگر کو یقین دلایا کہ تمام بلوچ لاپتہ افراد بحفاظت گھرواپس پہنچ جائیں گے۔ یہ وعدے بھی ادھورے ہی رہ گئے۔
اپنے والد کے اغوا کے تیرہ سال بعد، دونوں بہنیں، جو کبھی معصوم بچے تھیں، اب جوان عورتیں ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ وہ یتیم ہیں یا نہیں ،ان کی ماں کو یقین نہیں ہے کہ وہ شادی شدہ ہے یا بیوہ۔ ان کی زندگی ان کے والد کی گمشدگی کے نتیجے میں اُلٹ گئی۔ جیسا کہ سمی نے لکھا: “جس دن “ڈاکٹردین محمد” لاپتہ ہو گیا، اور اسی طرح بہت سی دوسری چیزیں بھی لاپتہ ہوئیں۔ ہم نے ایک گھر کھو دیا، جو کبھی پرامن تھا۔ خوشی اور جشن؛ ہمارا بچپن. ہم نے ایک ماں کا بیٹا، بیوی کا شوہر اور تین بچوں کا باپ کھو دیا۔ جب اسے اغوا کیا گیا تو ہماری پوری زندگی اجیرن ہوگئی۔ ہمارا خاندان عذاب میں تھا، سماجی، مالی، ذہنی اور جسمانی طور پر تکلیف میں تھا۔ میری بیمار ماں نے ان کے تعاون اور صحبت کے بغیر ہماری پرورش کی۔ وہ سب کچھ غائب ہوا جو کبھی ہم سے جُڑاتھا۔
دونوں بہنیں اس جدوجہد میں اکیلی نہیں ہیں بلکہ ان جیسی اور بھی بے شمار ہیں۔ 2016 میں لاپتہ ہونے والے طالب علم رہنما شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ ہے، ذاکر مجید کی والدہ ہیں، جو 2009 میں لاپتہ ہو گئے تھے اور ابھی تک گھر واپس نہیں آئی۔ ان کی بہن فرزانہ مجید جو VBMP کے بانیوں میں سے ایک ہے۔ لاپتہ راشد حسین بلوچ کی بوڑھی والدہ باس خاتون ہیں، جنہیں 2018 میں اماراتی فورسز نے اغوا کر کے غیر قانونی طور پر پاکستان منتقل کردیا تھا۔ نوجوان علی حیدر ہے، جس کا عمر 8 سال تھا جب اس کے والد 2010 کو لاپتہ کیے گئے تھے، اور جب وہ 11 سال کا تھا، اس نے اپنے والد کی تلاش میں کوئٹہ سے اسلام آباد تک کم از کم 1200 میل کا پیدل سفر کیا۔ وہ اپنے والد کی واپسی کے لیے احتجاج کرتے ہوئے VBMP کیمپ میں پلا بڑھا لیکن اپنے والد کی واپسی کے بجائے نوجوان علی حیدر خود لاپتہ ہو گئے۔
وی بی ایم پی کے کارکنوں کو بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنے پرامن احتجاج میں اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہیں حملوں، غیر قانونی حراستوں، مار پیٹ اور “سیکیورٹی فورسز کی سرپرستی میں کام کرنے والے ریاستی حکام اور”ملیشیاؤں” کی دھمکیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان مشکلات کے باوجود، وی بی ایم پی کے کارکنوں نے لاپتہ افراد اور ان کے اہل خانہ کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنا پرامن احتجاج اور وکالتی سفر جاری رکھا ہے۔
2022 کو کراچی میں ایک احتجاج کے دوران، لاپتہ افراد کے اہل خانہ پر پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے حملہ کیا۔ انہیں مارا پیٹا گیا، ہراساں کیا گیا، پولیس وین میں ڈالا گیا، اور جیل لے جایا گیا۔ اس دن کا ذکر کرتے ہوئے سمی دین بلوچ نے لکھا کہ: انہیں اور دیگر کارکنوں کو تھپڑ مار کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا. ان کے فون چھین لیے گئے۔ ان کی چادریں ان کے سروں سے اتار دی گئیں۔ ایک بار جب ان کے سر سے اسکارف ہٹا دیا گیا تو، پولیس افسر نے طنزیہ انداز میں ان سے کہا: “ایک بار ان کی شلواریں ہٹا دی جائیں، پھر وہ احتجاج کرنا چھوڑ دیں گی۔ انہیں’بدتمیز خواتین’ کہا جاتا تھا اور یہ سب کچھ شہرت کے لیے کرنے کا الزام تھا۔ “آپ کو لگتا ہے کہ آپ ایک لیڈر ہیں اور سب سے آگے ہیں۔ ہم آپ کو سبق سکھائیں گے”، سمی بلوچ نے ایک پولیس اہلکار کا حوالے دیتے ہوا کہا۔
وی بی ایم پی کے احتجاجی کیمپ کو بار بار حملوں اور توڑ پھوڑ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نامعلوم افراد نے بلوچ لاپتہ افراد کی تصاویر چھین لیں، جس سے ان کے اہل خانہ پریشانی میں مبتلا ہوئے۔ مزید برآں، کیمپ کا خیمہ، جو انصاف کے متلاشیوں کے لیے امید اور یکجہتی کی علامت سمجھی جاتی ہے، اُس کو نذر آتش اور اکھاڑ پھینکا گیا۔ یہ واقعات سچائی اور احتساب کی لڑائی میں پرامن مظاہرین کو درپیش چیلنجوں کو اجاگر کرتے ہیں۔
ان تمام چیلنجوں کے باوجود، بلوچ لاپتہ افراد کے کاز کے لیے VBMP کا عزم ثابت قدم ہے۔ انہیں جتنا زور سے دبایا جاتا ہے، اتنا ہی مضبوط وہ واپس اچھلتے ہیں۔ گروپ کا پرامن احتجاج ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری ہے، اہم چیلنجوں کا سامنا کرنے کے باوجود، بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے واضح کیا ہے کہ جب تک ان کے پیاروں کی بحفاظت واپسی نہیں ہو جاتی، وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ VBMP نے اپنے غیر متشدد نقطہ نظر کی وجہ سے شہرت حاصل کرچکی ہے۔
گروپ کے وکالتی جہدِ مسلسل نے جبری گمشدگیوں کے معاملے کو قومی اور بین الاقوامی توجہ کے سامنے لایا ہے۔ وی بی ایم پی لاپتہ افراد کے مقصد کے لیے بیداری پیدا کرنے اور تعاون کو متحرک کرنے میں کامیاب رہا ہے۔VBMP کا اثر میڈیا کی بڑھتی ہوئی کوریج، عوامی توجہ اور بلوچستان کی صورتحال کی بین الاقوامی جانچ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
حکومت جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے، جس کی وجہ سے لاپتہ افراد کے اہل خانہ میں بے چینی اور مایوسی پھیل گئی ہے۔ 2011 میں تشکیل دیے گئے جبری گمشدگیوں پر انکوائری کا نام نہاد کمیشن اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ 2020کے ایک سخت جائزے میں، انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (ICJ) نے کہا کہ کمیشن اپنے مشن میں “مکمل طور پر ناکام” ہو گیا ہے۔ مزید برآں، کمیشن نے بغیر کسی مناسب جواز کے ہزاروں مقدمات کو نمٹا دیا اور انصاف کی تلاش میں اس کے دروازے پر دستک دینے والے لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی تذلیل کی۔
جیسے VBMP اپنے پرامن احتجاج کے 5000 ویں دن کو منا رہا ہے، یہ پرامن مزاحمتی تبدیلی اور طاقت کی یاد دہانی کی علامت ہے. VBMP کا مشکل حالات میں خاموش رہنے سے ثابت قدم انکار تاریخ کی کامیاب ترین تحریکوں کی عدم تشدد پر مبنی مہمات کی بازگشت ہے۔ انسانی حقوق کے لیے ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئے گی، یہاں تک کہ بے پناہ چیلنجز کے باوجود۔ مزاحمت کا وہ پائیدار جذبہ جس نے VBMP کے خیمے کو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے قائم رکھا ہوا ہے اور لاتعداد لوگوں کو ان کے انصاف کے حصول میں تحریک اور ترغیب دیتا ہے۔ جیسے ہم VBMP کے شاندار سفر پر غور کرتے ہیں، ہم انسانی حقوق کے فروغ کے لیے ان کی انتھک کوششوں اور بلوچستان میں پسے ہوئے اور ناآشنا لوگوں کی وکالت کے لیے ان کی لازوال محنت کو دیکھ سکتے ہیں۔