مظلوم و محکوم قومیتوں کو درپیش مسائل
تحرير: روف قیصرانی
دئ بلوچستان پوسٹ
لاہور اور شہری پنجاب کے کچھ این جی او نام نہاد لبرلز بلوچ و پشتون سمیت مظلوم قومیتوں پر جاری جبر پر ہومیو پیتھک اظہار ہمدردی کر کے ایک لحاظ سے اس جبر کو جواز فراہم کرنے کی اپنے تئیں کوشش کرتے ہیں۔ یہ اپر ایلیٹ طبقہ حقیقی بلوچ مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہ صرف بلوچ و پشتون کا نام استعمال کر کے دنیا میں خود کو انسانی حقوق کے چمپئین کے طور پر متعارف کروانا چاہتا ہے۔ یہ فیمینزم کے نام نہاد دعوے دار تو بنتے ہیں لیکن جب کسی بلوچ عورت پر قبائلی اور کسی حد تک حکومتی و ریاستی سطح پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں تو یہ اگر مگر چونکہ چنانچہ کی گردان سے ان حقیقی مسائل سے پہلو تہی کرتے ہیں۔
یہاں بھی کچھ حقیقی انسانی حقوق کے علمبردار موجود ہیں لیکن ان چرب زبان شاطروں کی وجہ سے ان کی حقیقی جدوجہد بھی نیوٹرالائز ہو جاتی ہے۔جب بلوچ قوم ریاستی آئین کے مطابق مسنگ پرسنز کے انتہائی تکلیف دہ المیے کا حل چاہتی ہے، تو اس پر سرمایہ داروں کے یہ روحانی ہمنوا بلکل چپ سادھ لیتے ہیں۔اسی طرح جب بلوچ اور پشتون اپنے وسائل پر حق مانگتے ہیں تب بھی لبرل کے انتہائی شاطر چولے میں ملبوس ہوس پرستوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ لیکن جب بلوچستان میں سلگتے مسائل پر پردہ ڈالنے کیلیے کسی نان ایشو پر سازشی گفتگو کا پلانٹڈ آغاز ہو تو یہ ایلیٹ طبقہ منہ کے تیور بدل بدل کر گالم گلوچ کے ہتھیار سے لیس انسانی ہمدردی کے بہروپ میں حملہ آور ہو جاتا ہے۔ زورآوروں کے بل واسطہ سہولت کار پھر اس گفتگو کی آڑ میں بلوچ و پشتون کی سیاسی مزاحمت کے اسٹیک ہولڈر بننے کو حق سمجھتے ہیں۔ ٹم ہارٹنز اور سیکنڈ کپ coffee کی کنزیومر پارٹنر یہ ایلیٹ کلاس چلتن و بولان اور مکران و کوہ سلیمان کی سیاست پر یوں رائے زنی کرتی ہے جیسے ان کی پیدائش ان علاقوں کی ہوئی ہو اور بذات خود ان مسائل کا شکار ہوں۔
انسان و انسانیت کی توقیر و برابری کے مقدمے میں نامزد ملزمان اور ثابت شدہ مجرمان کے بارے قطعی انداز میں رائے دینے سے اجتناب ان نام نہاد لبرلز کی تکنیکی بددیانتی ہے۔ مہنگے اور عام انسانوں کی اپروچ سے دور انگریزی نظام تعلیم سے فیض یاب یہ زر پرست ٹولہ، چونکہ انگریزی زبان پر گرفت کی وجہ سے مختلف کثیف فلسفوں اور ویسٹرن رائیٹرز کے حوالے دے کر الفاظ کی بنت کاری اور کرافٹ کا ماہر ہے، اس لیے علمی فضیلت کے رعب اور دبدبے سے مظلوم اقوام اور افراد کا انٹیلیچوئل استحصال اپنا حق سمجھتا ہے۔ لیکن مظلوم قومیتیں اور افراد جبر کے دو پاٹوں میں پس کر اتنے باشعور ضرور ہو چکے ہیں کہ اسے اپنی بات کہنے اور ظالم کو للکارنے کیلیے مستعار لیے گئے الفاظ اور فلسفوں کی ضرورت نہیں ہے۔ زور آوروں اور انگریز باقیات کے دوہرے جبر کے شکار یہ مظلوم و محکوم انسان یہ ضرور چاہتے ہیں کہ دیگر اقوام و افراد ان کی جدوجہد کو تقویت باہم پہنچانے کیلیے آواز اٹھائیں لیکن وہ آوازیں حقیقی انسانی حقوق اور انسانیت پرستوں کے کیمپس سے اٹھائی جائیں نا کہ زرپرست اشرافیہ کے لبرل ساجھے داروں کی طرف سے صرف دکھاوے کیلیے اٹھیں۔ عظیم تر ہیں پنجاب کے شہری علاقوں کے وہ انسان جو کوسوں دور بیٹھ کر بغیر کسی مفاد و منفعت کے صرف انسانی بنیادوں پر آواز حق بلند کرتے ہیں اور کبھی اس کا صلہ بھی طلب نہیں کرتے۔ اب ان حقیقی جہد کاروں اور بلوچ و پشتون سمیت مظلوم اقوام کے سیاسی و سماجی طور پر بالغ اور نظریاتی طبقہ کو مل کر ان سامراجی آلہ کاروں کو بے نقاب کرنے کی جدوجہد کا وقت ہے۔ اب مزید جھوٹ، فریب اور قرون وسطی کی شاطرانہ چالوں سے ان اقوام کے رستے زخموں پر مرہم کے رنگ میں ڈھلے خوبصورت الفاظ سے بھرپور نمک پاشی کا وقت گزر چکا۔ بات کرنی ہے تو عملی طور پر اگر مگر کی مصلحتوں سے نکل کر کھلے مکالمے کے ذریعے زیادتیوں اور سماجی و سیاسی حبس کے خلاف بات کریں۔ ورنہ خاموش رہیں آپ کی ہمدردی کے رنگ میں لپٹی سازشی لفاظی ان کے زخموں کو مزید ہرا کر دیتی ہے۔ وحشت اور جبر کو پھلنے پھولنے کیلیے کتنے ہی موزوں موسم میسر ہوں لیکن ان مکروح جھاڑیوں کو انصاف و برابری اور سیاسی مزاحمت کی تازہ ہوا ایک دن ضرور راکھ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ امر رہیں حق پرست اور امر رہے سیاسی و شعوری مزاحمت۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں