گوادر تجارتی میلے میں مقامی افراد کو شرکت سے روک دیا گیا۔دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ گوادر جیئند بلوچ کی رپورٹ
بلوچستان کابینہ کے اراکین بشمول وزیر داخلہ کو نظر انداز کرنے پر تقریب سے بائیکاٹ۔ وزیر اعظم شاھد خاقان عباسی نے گوادر کے لیئے دو ارب روپے کی پیکج کا مطالبہ مسترد کردیا جو وزیر اعلی قدوس بزنجو نے کیا تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندہ گوادر جیئند بلوچ کی رپورٹ کے مطابق گوادر میں کل سے جاری تین روزہ تجارتی میلہ میں جہاں پاکستان بھر سے لوگ شریک ہورہے ہیں وہاں مقامی لوگوں کو نظر انداز کرکے سخت قوانین کے سبب انہیں شرکت سے روک دیا گیا۔
گوادر ایکسپو میلہ کے بارے پاکستانی حکام کا دعوی ہے کہ ایک عالمی تجارتی میلہ ہے جس میں چین سمیت مختلف دیگر ممالک شریک ہیں اس کا انعقاد گوادر میں فری پورٹ کے افتتاح سے کیا گیا ہے جس میں پاکستانی دعوے کے مطابق یہ معیشت کے لیئے ایک گیٹ وے ہے جہاں سے تجارتی راہداری کے زریعے پاکستان اور چین دنیا کے دیگر ممالک سے مل کر وسیع پیمانے پر سرمائیہ کاری کرسکیں گے۔
تاہم پاکستانی حکومت کی دعوٶں کے برعکس چین کے علاوہ کوئی نمایاں ملک کا اسٹال ایکسپو میں نظر نہیں آیا جو نا صرف ان دعووں کی صداقت پر سوال اٹھاتا ہے جس کا پاکستان زکر کرتی ہے بلکہ گوادر پورٹ اور اقتصادی راہداری سے متعلق دنیا کی عدم توجہی بھی ظاہر کرتی ہے۔
دوسری طرف گوادر ایکسپو میں پاکستان کے مختلف شہروں سے روزانہ پی آئی اے کی چار پروازیں تین دنوں سے گوادر آتی رہیں جن کا مقصد لوگوں کو ایکسپو کے لیئے لے آنا تھا لیکن مقامی لوگوں کےلیئے سخت قوانین نافذ کرکے انہیں شرکت سے دور رکھا گیا۔
نمائندہ دی بلوچستان پوسٹ کے مطابق ایکسپو میں اس وقت دل چسپ صورتحال پیدا ہوئی جب پاکستان اور چائنیز حکام کے درمیان مختلف معاہدوں پر دستخط کی تقریب سے بلوچستان کابینہ کے اراکین اور صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کو دور رکھ کر انہیں پچھلے لائنوں میں بٹھا دیا گیا جس پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے وہ تقریب کے دوران اٹھ کر چلے گئے۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی حکام کا گوادر کے معاملات میں بلوچستان کو مسلسل نظر انداز کرنا اس امر کا اظہار ہے کہ مستقبل میں یہ منصوبہ بلوچستان کے لیئے سنگین خطرات کا باعث بنے گا۔
اس منصوبے کے متعلق بلوچستان کی قوم پرست اور آزادی پسند قیادت پہلے سے خدشات ظاہر کرچکی ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ایک سامراجی معاہدہ ہے جس کے زریعے چین یہاں بیٹھ کر خطے کے لیئے مشکلات پیدا کرے گا بلکہ بلوچستان کو تباہی کی جانب لے جائے گا اور کامیابی کی صورت میں بلوچ قومی شناخت اور تشخص کو بھی متاثر کرے گا۔