جامعہ بلوچستان ملازمین کے تنخواہوں کی عدم ادائیگی تشویشناک ہے – ڈاکٹر مالک بلوچ

131

جوائنٹ ایکشن کمیٹی جامعہ بلوچستان کا ایک نمائندہ وفد نے بلوچستان یونیورسٹیز ایکٹ 2022 کے پالیسی ساز اداروں میں شامل کرانے کے لئے ترامیم کے عنوان سے منعقدہ گرینڈ ڈائیلاگ کی اعلامیئے اور سفارشات پر مبنی کتابچے کو نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر وسابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، پشتونخوا میپ کے سینئر مرکزی سیکرٹری سید قادر آغا، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی دفتر باچا خان مرکز، چیمبر آف کامرس بلوچستان کے عہدیداران، بلوچستان بار کونسل و کوئٹہ بار کونسل، اٹارنی و ڈپٹی اٹارنی جنرل شہک بلوچ، سی پی ڈی کے ڈاکٹر نصراللہ بڑیچ، سینئر وکیل عبداللہ کاکڑ ایڈووکیٹ، صحافیوں اور ہیومن رائٹس آف کے حبیب طاہر ایڈووکیٹ اور دیگر میں تقسیم کی۔

وفد سے نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ جامعہ بلوچستان کے اساتذہ اور ملازمین اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی و صوبائی حکومت کو ہر صورت جامعہ بلوچستان سمیت دیگر جامعات کے لئے اپنے بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے صوبائی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بڑی جلد بازی میں جامعہ بلوچستان کی 1996 کے ایکٹ کو ختم کرکے بلوچستان یونیورسٹیز ایکٹ 2022 کو بڑی عجلت میں پاس کیا اور اس عمل میں نہ صرف قواعد وضوابط کو نظرانداز کیا بلکہ کسی بھی سٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی ۔

انہوں نے وفد کو یقین دلایا کہ جامعات کو درپیش مالی اور انتظامی بحران کا خاتمہ اور انکی مالی و انتظامی مسائل کو مستقل طور پر حل کرنا انکی پارٹی کا مشن ہے۔

وفد نے انکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انکی حکومت میں اس وقت کی مرکزی حکومت سے صوبے کے تمام طلبا وطالبات کی تمام فیسسزز کئی سالوں تک ادا کی گئی اور تمام طلبا وطالبات کو لیپ ٹاپ فراہم کیا گیا اور جامعہ بلوچستان کے پی ایچ ڈی، ایم فل اور گولڈ میڈلسٹ کو ایک ایک لاکھ روپے دیئے جبکہ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی اور یوسف عزیز مگسی چئیر کی بلڈنگ کی تعمیر کے لئے 15 کروڑ روپے سے زائد رقم اور جامعہ بلوچستان کے مین آڈیٹوریم کی رینوویشن کے لئے کروڑوں روپے ادا کئے جھاں بدقسمتی سے برطرف شدہ غیرقانونی طور پر مسلط وائس چانسلر کی طرف سے ان پر اور صوبے کی دیگر سیاسی جماعتوں اور شخصیات پر آنے کی پابندی لگائی۔