بلوچستان کے جزویات

1661

 ایک مملکت کے ٹوٹے ہوئے حصوں کی تلاش

ایران، افغانستان اور پاکستان کے مختلف حصوں پر پھیلے ہوئے بلوچستان خطے کی  سیاسی اور ارضی تنازعات کی طویل اور پیچیدہ تاریخ ہے۔ اس رپورٹ میں بلوچستان کی تقسیم کے بارے میں جامع جائزہ لیا جائے گا، جو 1795 سے 1948 کے دوران کئی مختلف حصوں کو مختلف کالونیل پاورز اور ریاستوں کے ذریعے تقسیم اور ضم کیا گیا۔

اس رپورٹ میں بلوچستان کی تقسیم کی وجوہات، مختلف معاہدوں کی تجزیہ کی جائے گی۔ یہ بھی جائزہ لیا جائے گا کہ بلوچ نیشنلسٹس کیوں 27 مارچ کو سیاہ دن کے طور پر مناتے ہیں، جب پاکستان کے حکومتی نظام نے قلات(بلوچستان) کی سب سے بڑی ریاست، کو خود میں ضم کر لیا تھا۔

علاوہ ازیں، یہ رپورٹ خطے کی تاریخی نقشوں کو شامل کرے گی اور بلوچستان کی ہر تشریح کی تفصیلی وضاحت فراہم کرے گی، جس میں برطانیہ، فارسی اور افغان امپائرز کو دیئے گئے علاقوں کے ساتھ-ساتھ وہ علاقے بھی شامل ہیں جو بعد میں پاکستان میں شامل کئے گئے۔

تصویر میں دکھائے گئے مقامات تخمینی ہیں اور پیمانہ درست نہیں ہو سکتا۔
مزید برآں، ضروری نہیں کہ حدود کی نمائندگی مستند ڈیٹا پر مبنی ہو۔

ڈیرہ جات کا قلات سے پاکستان تک سفر

ڈیرہ جات ایک ایسا خطہ ہے جس کا بیشتر حصہ جدید دور کے پاکستانی پنجاب کے صوبے میں واقع ہے، جس میں ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ فتح خان (تونسہ)، راجن پور، بهكّراور لیہ کے کچھ حصے، رحیم یار خان کے کچھ حصے شامل ہیں اس کے علاوہ صوبہ خیبر پختو خواہ کے علاقے جن موجودہ ڈیرہ اسماعیل خان ، ٹانک اورگرد و نواح کے علاقے  شامل ہیں، اس کے ساتھ موجودہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کے سرحدی علاقےبھی اس کی حدود کا حصہ تھے۔دیگر بلوچ علاقوں سے  کچھ چھوٹا ہونے کے باوجود یہ سب سے زیادہ گنجان آباد والے بلوچ علاقوں میں سے ایک ہے۔ ڈیرہ جات میں بلوچ آبادی کی تاریخ پندریوی صدی سے وجود رکھتی ہے ۔

 1717سے 1795 تک، ڈیرہ جات کی دودائی فیڈریشن بلوچستان کے مرکزی حکومت خوانین قلات کے دائرہ اختیار میں تھی۔ تاہم، 1795 میں، پڑوسی افغانوں نے ڈیرہ جات پر حملہ کیا اور 24 سال تک یہ افغانوں کے زیر قبضہ رہا۔ اس دوارن قلات حکومت اندرونی اور بہرونی انتشار کے باعث غیر مستحکم حالت میں تھی جس کی وجہ سے ڈیرہ جات کے بلوچ قبائلیوں کو کوئی خاطر خواہ کمک نہیں کی جاسکی۔

 1819میں، افغانوں کو سکھ سلطنت نے بری طرح شکست دی اور کئی افغان علاقے بشمول مقبوضہ ڈیرہ جات کے علاقوں پر سکھوں کے قبضہ میں چلے گئے ۔لیکن بلوچوں کی مسلسل مزاحمت کی وجہ سے سکھ صرف شہروں اور قلعوں تک محدود تھے، جبکہ باقی دراجات پر بلوچ جنگجوؤں کا کنٹرول تھا۔ یہ سلسلہ 1839 تک جاری رہا جب سکھوں کو برطانوی افواج نے بلوچ قبائل کی مدد سے شکست دی۔

انگریزوں نے سکھوں کو شکست دینے کے بعد اس علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ 1849 میں برطانوی حکومت نے اس خطے کو دو اضلاع ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں تقسیم کر دیا۔ بعد ازاں، جب پاکستان 1947 میں قیام میں آیا تو ڈیرہ جات کا علاقہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔

1947بعد ڈیرہ جات کے کچھ حصے پاکستان کے دیگر صوبوں میں تقسیم کر دیے گئے۔ کچھ علاقوں کو موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان صوبوں میں شامل کیا گیا، جب کہ ڈیراجات کا زیادہ تر علاقہ 1970 میں پاکستانی صوبہ پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔

مشرقی اور مغربی بلوچستان حدود

مشرقی اور مغربی بلوچستان لائن ایک ایسی سرحد ہے جو ایران اور پاکستان کے عالمی سرحدوں کو نمایا کرتی ہے۔ یہ 1871 میں قائم کیا گیا تھا اور 1903 اور 1905 میں دو معدوں-  اسے گولڈ سمڈ لائن اور ہولڈز آربیٹریری کے ذریعے باقاعدہ شکل دی گئی تھی۔ گولڈ سمڈ لائن کوہ سیہان کے علاقے سے گوادر خلیج کے قریب گواتر تک کےحصوں کو تقسیم کرتا ہے، جبکہ ہولڈز آربیٹریری (تھامس ہولڈچ) کے تہات کوہ ملک سیاہ سے کوہ سیہان تک کے بلوچ علاقوں کے تقسیم کرتی ہے۔ 1938 میں مغربی بلوچستان کو مزید صوبوں میں تقسیم کرکے اسے پانچ صوبوں میں تقسیم کیا گیا۔ سیستان و بلوچستان  کے نام سے ایک یا صوبہ بنایا گیا،اور مغربی بلوچستان کے کچھ حصوں کو کرمان، جنوبی خراسان اور ہرمزگان میں ضم کر دیا گیا۔جبکہ ایک چھوٹا علاقہ رضویخراسان میں شامل کیا گیا۔

یہ حدود اور اس کے نتیجے میں علاقائی تنظیم نو اس خطے میں پیچیدہ تاریخ اور جغرافیائی سیاسی قوتوں کی عکاسی کرتی ہے۔ آج، مشرقی اور مغربی بلوچستان لائن ایران اور پاکستان کے درمیان بنائی گئی سرحد اس خطے کی سیاسی، اقتصادی اور سماجی محملات کو آج بھی متاثر کرتی ہے۔

 1959میں، پاکستان نے میرجاوہ اور دیگر سرحدی علاقے ایران کے حوالے کر دیے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان بلوچستان کی سرحدوں میں معمولی تبدیلی کی گئی۔ علاقوں کی یہ منتقلی ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی سفارتی کوشش تھی۔

تصویر میں دکھائے گئے مقامات تخمینی ہیں اور پیمانہ درست نہیں ہو سکتا۔
مزید برآں، ضروری نہیں کہ حدود کی نمائندگی مستند ڈیٹا پر مبنی ہو۔

بلوچ-افغان-فارس سرحدیں

تاریخی پہلو اور متنازعہ علاقے

بلوچ علاقوں کو تین معاہدوں کے ذریعے جنوب مغربی اور مشرقی/مغربی علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا

سب سے پہلا معاہدہ تیسرے فریق کی ثالثی میں کیے جانے والا پیرس معاہدے تھا جس کو 1857 میں تسلیم کر لیا گیا تھا ، لیکن اس پر عمل درآمد 1872 اور 1935 کے درمیان کیا گیا۔

جبکہ دوسری سرحدی معاہدے کو میک موہن ایوارڈ کہا جاتا ہے اس معاہدے کی شروعات 1872 میں کی گئی تھی لیکن قانونی شکل 1903 اور 1905 میں دی گئی جس کے بعد بلوچ علاقے میں افغانستان ایران سرحد قائم کی گئی۔

تیسری سرحدی تقسیم ڈیورنڈ لائن 1893 میں قائم کی گئی تھی، جو افغانستان اور موجودہ پاکستان کو الگ کرتی ہے، جس کی قانونی حیثیت ابھی تک متنازع ہے۔ 1896 میں، افغان امیر کی جانب سے ڈیورنڈ معاہدے کی عدم تعمیل کی وجہ سے بلوچ علاقوں میں سرحدوں کی تقسیم کے لیے ایک اور معاہدہ کیا گیا، جو افغان بلوچ سرحدی کمیشن میں کیپٹن میک موہن کی سربرائی میں قائم کی گئی تھی،  جو کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بلوچ علاقوں کو الگ کرتی ہے، ۔ تاہم زیادہ تر بلوچ مورخین اور مصنفین میک موہن لائن کو ڈیورنڈ لائن سے الگ سمجھتے ہیں۔

1929میں، بلوچ علاقوں کو فراہ اور قندھار کے صوبوں میں ضم کر دیا گیا، 1968 میں بلوچ علاقوں کو چار صوبوں: نمروز، قندھار، فراہ اور ہلمند میں دوبارہ تقسیم کیا گیا ڈیورنڈ لائن اور میک موئن لائن کی متنازعہ قانونی حیثیت خطے کے استحکام اور سلامتی کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔


خیال رہے میک موئن لان موجودہ بلوچستان اور افغانستان کے علاقوں کو تقسیم کرتی تھی ہیں، جب کے میک موہن ایوارڈ بلوچ صوبہ نمرور اور مغربی بلوچستان کے علاقوں کو تقسیم کرتی ہیں۔

کراچی، خان گڑھ، گوادر، میرجاوہ

کراچی

کراچی میں بلوچ آبادی کی ایک طویل تاریخ ہے، سندھ میں طلوع اسلام سے بھی پہلے سے بلوچ اس علاقے میں آباد تھے، پندریوی صدی میں  کراچی مکران کا حصہ رہا  اور بعد میں مختلف علاقائی طاقتوں کے ما تحت بھی اچکا ہیں۔

 1666 میں مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دور حکومت میں اسے رسمی طور پر بلوچستان کے حکمران کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ کراچی 130 سالوں قلات کے ماتحت رہنے کے بعد  ایک اور بلوچ حکومت، تالپوروں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ فروری 1839 میں، برطانوی فوج نے بندرگاہی شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ جس کی وجہ سے پہلی اینگلو-افغان جنگ سے پہلے انگریزوں اور قلات کے درمیان مذاکرات کا ایک دور چلا، جس کی پیشگی شرائط میں سے ایک کراچی پر قلات کا کنٹرول بحال کرنا تھا، لیکن مذاکرات ناکام ہو گئے اور انگریزوں نے قلات پر حملہ کر دیا۔

خانگڑھ

1839 اور 1840کے درمیان بلوچستان کے علاقے خانگڑھ کو انگریزوں نے قبضہ کر لیا تھا، خانگڑھ کے قبضے کی وجہ اسکی جغرافیہ بنی جو فوجی اعتبار سے کا فی اہمیت کی حامل تھی۔ انگریزوں کے قبضے کو سندھ، بلوچستان اور افغانستان تک اس علاقے سے وسعت ملی۔

خانگڑھ کا نام 1847 کے آس پاس تبدیل ہو کر ،جون جیکب کے سے منصوب ہو گیا، جو اب بگھڑ کر جیکم آباد بولا جاتا ہے۔

گودار

سال 1783 میں جب سید بن احمد بلوچستان کے حکمران نوری نصیر خان کے دربار میں پناہ کی فریاد لے کر حاضر ہوئے تو نصیر خان نے قدیم بلوچ روایت باہوٹ (پناہ دینا) کی پاسداری کرتے ہوئے، عمانی شہزادے کو گوادر اور اس سے آنے والی آمدنی عطا کر دی۔ گودار، عمان کے لیے ایک  اسٹریٹجک بندرگاہ اور سمندری تجارت کے مرکز کے طور پر کام کرتا رہا۔ 1958 میں گوادر کو بلوچستان میں ضم کر دیا گیا۔

میرجاوہ

1959میں ایک سرحدی معاہدے کے تحت اس وقت کے پاکستانی آمر جنرل ایوب خان نے میرجاوہ اور دیگر سرحدی علاقوں کے کچھ حصے بطور تحفہ ایران کے حوالے کر دیے۔ یہ معاہدہ “گوادر-تہران معاہدہ” کے نام سے جانا جاتا تھا۔

تصویر میں دکھائے گئے مقامات تخمینی ہیں اور پیمانہ درست نہیں ہو سکتا۔
مزید برآں، ضروری نہیں کہ حدود کی نمائندگی مستند ڈیٹا پر مبنی ہو۔

برٹش بلوچستان

 بلوچستان (قلات) اور افغانستان سے لیز پر دیئے گئے علاقوں کوملا کر برٹش بلوچستان کا ایک صوبہ بنایا گیا جو برائےراست انگریزوں کے ماتحت تھی۔

لیز پر لیے گئے علاقوں کی تفصیل.

1879میں دوسری اینگلو افغان جنگ سے پہلے کوئٹہ اور کچلاک کو قلات سے لیز پر لیا گیا تھا۔ اسی سال پشین اور سبی کو افغانستان سے لیز پر لیے گئے تھے۔ سبی کے اطراف کے علاقے بھی اسی معاہدے میں انگریزوں کے ماتحت چلے گئے تھے، جن میں ہرنائی اور زیارت بھی شامل تھے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ سبی انتظامی حوالے سے بلوچستان اور افغانستان کے درمیان تبدیل ہوتا رہا ہے، لیکن پندرہویں صدی سے بنیادی طور پر بلوچ علاقہ رہا ہے۔

1877 میں مری اور بگٹی علاقوں میں جاری بغاوت کو ایک معاہدے کے تحت ختم کرنے کے بعد مری اور بگٹی علاقوں کو   قبائلی علاقہ جات کا درجہ دینے کے ساتھ انکو برطانوی حکومت کے ماتحت کردیا گیا جن کا دارالحکومت سبی تھا۔

1883میں بولان پاس (درہِ بولان) کے راستے انگریزوں کو قلات نے لیز پر دیے۔ 1890 میں ژوب اور کھیتران ( بارکھان )کے علاقے افغانستان سے لیز پر لیے گئے تھے۔ سبی کی طرح بارکھان بھی بلوچ اکثریتی علاقہ ہے جو معاہدے کو وقت افغان قبضے میں تھا۔

1896میں اے ایچ میک موہن بارڈر ٹریٹی  کے بعد چاغی اور سنجرانی قبائلی علاقوں کو لیز پر انگریزوں کو دیا گیا۔ 1899 میں نوشکی کو قلات سے لیز پر لیا گیا۔ 1903 میں نوری نصیر خان کے نام سے منصوب علاقے نصیر آباد کو قلات سے لیز پر لیا گیا۔ یہ قلات سے برطانوی حکومت کو لیز پر دیا جانے والا آخری علاقہ تھا۔

1947 میں برٹش بلوچستان کے لیز کردہ علاقوں کو  پاکستان میں شامل کر دیا گیا تھا۔ 1955 میں ان علاقوں کو ون یونٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ اور 1970 میں اسے دیگر بلوچ علاقوں کے ساتھ ملا کر موجودہ بلوچستان کا صوبہ بنایا گیا۔

تصویر میں دکھائے گئے مقامات تخمینی ہیں اور پیمانہ درست نہیں ہو سکتا۔
مزید برآں، ضروری نہیں کہ حدود کی نمائندگی مستند ڈیٹا پر مبنی ہو۔

 

 الحاقِ بلوچستان کی تاریخ

اینگلو افغان جنگ سے قبل خان محراب خان اور انگریزوں کے درمیان مذاکرات کا ایک دور چلا جو کہ ناکام ثابت ہوا۔ خان کی تجویز میں دو اہم شرائط تھے جن میں ڈیرا جات بلوچستان کے علاقوں کو پنجابی سکھوں کے قبضے سے آزاد کرانے میں قلات کو برطانیہ کی حمایت ، اور کراچی کی بندرگاہ پر قلات کی حکمرانی کی بحالی تھی۔

1839میں انگریزوں نے قلات پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں قلات کے حکمران خان محراب خان سمیت 300 کے قریب لوگ جانبحق ہو گئے۔ قلات پر برطانوی قبضے کا مقصد بلوچستان پر قبضہ تھا، 1841 میں مختلف قبائل میر نصیر خان دوم  کی قیادت میں متحد ہو گئے۔ اور انگریزوں کو شکست دے کر قلات کو کٹ پتلی حکومت سے آزاد کر لیا۔  اگرچہ بلوچ قبائل 1841 میں قلات کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن انگریزوں کی طرف سے مسلط کردہ شرائط نے ان کی آزادی کو محدود کر دیا۔

اگلی صدی کے دوران، انگریزوں نے آہستہ آہستہ بلوچستان کے کچھ حصوں کو افغانستان اور ایران کے درمیان تقسیم کر دیا، جبکہ کچھ حصوں سے برٹش بلوچستان کا صوبہ  بنا گیا۔ قلات خود کچھ دیگر ریاستوں سمیت آزاد رہا لیکن یہ آزادی بھی محدود تھی، وہ ریاستیں اور علاقے جو برٹش بلوچستان کا حصہ نہیں تھی (جن میں قلات، مکران، خاران، لسبیلہ کے علاقے شامل تھے)، وہ انگریزوں کے انخلاء کے بعدمکمل آزاد ہوگئے۔ لیکن یہ آزادی صرف نو ماہ تک قائم رہی اور 27 مارچ 1948 میں فوجی الحاق کے بعد اسے پاکستان میں شامل کر دیا گیا ۔

1952 میں، قلات، خاران، لسبیلہ، اور مکران کی ریاستوں کو ملا کر بلوچستان اسٹیٹس یونین کا قیام عمل میں آیا، 1955 میں پاکستان نے ون یونٹ اسکیم متعارف کرائی، جس میں بلوچستان اسٹیٹس یونین سمیت مغربی پاکستان کے صوبوں کو ایک واحد انتظامی یونٹ میں ضم کردیا گیا۔ اس اقدام نے دیگر صوبوں کے ساتھ بلوچستان کو بھی تحلیل کر دیا اور انہیں مغربی پاکستان کے بڑے صوبے میں ضم کر دیا۔

1970 میں مغربی پاکستان کا صوبہ تحلیل کر دیا گیا، اور موجودہ بلوچستان کا صوبہ سابقہ برٹش ​​بلوچستان (جو کہ برطانوی دور حکومت میں بلوچستان کا سابق چیف کمشنر صوبہ تھا) اور سابقہ ​​بلوچستان اسٹیٹس یونین کو ملا کر بنایا گیا۔

تصویر میں دکھائے گئے مقامات تخمینی ہیں اور پیمانہ درست نہیں ہو سکتا۔
مزید برآں، ضروری نہیں کہ حدود کی نمائندگی مستند ڈیٹا پر مبنی ہو۔

اگر بلوچستان ایک آزاد اور متحد ملک ہوتا۔

اگر بلوچستان دوبارہ ایک آزاد ملک بن جاتا ہے تو اس کا رقبہ تقریباً 731,000 مربع کلومیٹر ہوگا، جو اسے جرمنی، جاپان یا اٹلی سے دوگنا بڑا ملک بنا دے گا۔ مزید برآں، یہ خطہ 1,100 کلومیٹر کی ساحلی پٹی رکھنے والا ملک ہوتا ، جو اسے سمندری تجارت اور اسٹریٹجک حوالے سے مزید اہمیت کا حامل بناتا۔ بلوچستان کا محل وقوع، جو کہ دریائے سندھ سے مشرق وسطیٰ اور بحر ہند سے وسطی ایشیا سے ملانے کی وجہ سے اس کو ممکنہ تجارتی مرکز کے طور پر اس کی اہمیت کو مزید بڑھا دے گا۔

مزید برآں، بلوچستان تیل، گیس اور معدنیات سمیت قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، جو اس کی معاشی ترقی کو ہوا دے سکتا ہے۔ خطے کے مختلف علاقے سیاحت کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں ۔ بلوچستان کا جغرافیہ اسے توانائی کی راہداریوں کے حوالے سے بھی ایک اہم مرکز بناتا ہے۔  

آخر میں، اگر بلوچستان دوبارہ ایک ملک بن جاتا ہے، تو اس میں ترقی کے بے پناہ امکانات ہیں۔ اپنے وسیع زمینی اور بحری رقبہ، وافر قدرتی وسائل اور محل وقوع کے ساتھ یہ خطہ میں علاقائی اور عالمی معاملے  میں ایک بڑی طاقت بن سکتا ہے۔