گذشتہ سال دسمبر میں جبری طور پر لاپتہ لسبیلہ یونیورسٹی کا طالبعلم عبدالقدوس قمبرانی بازیاب نہیں ہوسکا۔ لاپتہ طالبعلم کے ایک نوجوان بھائی کی مسخ لاش اس سے قبل مل چکی ہے۔
عبدالقدوس قمبرانی کی جبری گمشدگی اور عدم بازیابی کے خلاف رواں سال فروری میں ساتھی طالب علموں نے احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔
لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین سائنس اوتھل (لوامز) کا طالب علم عبدالقدوس قمبرانی تاحال بازیاب نہیں ہوسکا۔ انہیں کوئٹہ سمنگلی روڈ پر واقع ایک ہوٹل سے 28 دسمبر 2022 کی رات نامعلوم مسلح افراد نے زبردستی گاڑی میں بٹھاکر لاپتہ کیا۔
خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں تین مہینے سے بھی زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے مگر ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔
لواحقین کا کہنا ہے کہ عبدالقدوس قمبرانی یونیورسٹی سے امتحان دے کر چھٹیاں گذارنے کوئٹہ میں واقع اپنے گھر گئے تھے اور اسی رات دوستوں کے ساتھ بازار کا رخ کیا جہاں اسے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
خیال رہے اس سے قبل عبدالقدوس قمبرانی کے ایک بھائی باقر قمبرانی کو سال 2013 میں قلات سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جنہیں دو سال کے بعد رہا کیا گیا جبکہ اس دوران لسبیلہ یونیورسٹی میں واٹر ریسورس منیجمنٹ کے طالب علم ان کےدوسرے بھائی حفیظ قمبرانی کو 14 مارچ 2015 کو قلات سے جبری لاپتہ کیا گیا جن کی مسخ شدہ لاش ایک مہینے بعد 24 اپریل کو برآمد ہوئی تھی۔
خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی بھی بے گناہ طالب علم کو نشانہ بنانا ظلم عظیم اور تعلیم دشمنی ہے۔ قدوس قمبرانی ایک محنتی اور قابل طالبعلم ہے جس طرح دیگر باشعور اور تعلیم یافتہ بلوچ طلباء پر زمین تنگ کیا جاتا رہا ہے قدوس بھی اُن ہی بے گناہ لاپتہ بلوچ نوجوانوں میں سے ایک ہے جو کہ نامعلوم اسلحہ اور ڈیوائس تھامے افراد کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ہوا ہے۔
تاہم لواحقین نے اعلیٰ حکام اور لاپتہ افراد کیلئے قائم کمیشن سے درخواست کی ہیں کہ قدوس قمبرانی کو جلد از جلد منظر عام پر لایا جائے تاکہ وہ اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔