لہولہان بلوچستان! ۔ ایم یونس عابد

317

لہولہان بلوچستان! 

تحریر: ایم یونس عابد

دی بلوچستان پوسٹ

ہم ہمیشہ ظلم، جبر و استبداد سے باخبر ہوتے ہوئے بھی کسی نہ کسی سانحہ کے رونما ہونے تک لبوں کو سی کر بریدہ دامن سے لہو ٹپکنے کے منتظر رہتے ہیں۔

اِسے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی کیا وجوہات ہیں؟

بےبسی ، سنگ دلی ، بےغیرتی یا خوف ؟

ایک دور میں سردار بلوچیت کی حرمت پر اپنی تمام توانائیاں صرف کرکے بلوچی بیرک کو بلند کرتا یہاں تک کہ اپنی جان تک قربان کرتا۔ اُن میں ایک بوڑھا 90 سال کا شیر شہید نواب اکبر خان بگٹی ہی تھا جس نے ایک عورت کی عزت کی پامالی کےخلاف ریاست سے مزاحمت کرکے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

جب بلوچستان میں نواب بابا مری جیسے فلسفی سردار اور سردار عطاء اللہ مینگل جیسے ذہین بےباک سیاست دان زندہ تھے تو اس وقت ریاست پوری ایڑی چوٹی کے زور پر ان کے خاتمے کےلیے قبائلوں کو دست و گریباں کرکے، کھیتران جیسے نام نہاد سرداروں اور وڈیروں ، بدمعاش میروں کی اپنی ہی گود میں نشوونما کی۔ تو ریاست اپنے منحوس مشن میں کامیاب ہوئی ایک کو شہید کیا باقی دو گوشہ نشیں ہوئے۔

جب مردِ حُر نہیں رہے تو نادیدہ قوتوں نے اپنے اپنے پالے اور باؤلے کتوں کو میدان میں لانچ کیا۔ پھر ایسے دردناک واقعات کا سلسلہ شروع ہوا جس طرح چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک لاچار بلوچ ماں قرآن پاک کو ہاتھوں میں تھامے شکستہ لہجے میں اپنا درد دل کیمرے کے سامنے بیان کر رہی تھیں شاید وہ ایک امید و آس لگائی ہوئی تھیں، اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کررہی تھیں کہ شاید میرے دیس کے لوگ جاگ جائیں تو میرا گھر اجڑنے سے بچ پائے ۔

اس ماں کو کیا خبر تھی کہ میں دیمک خوردہ سماج اور مفلوج ذہن لوگوں سے مخاطب ہوں۔ان کو کیا گماں کہ یہ لوگ فقط لاشوں پر سینہ کوبی کرلیتے ہیں ان کے ہاں زندوں کی کوئی قیمت نہیں۔

ماں کی آزردہ آواز سے درندگی اور سفاکیت جاگ کر ایک خانہ کی نسل نو کا خاتمہ کرکے ویران کنویں میں خون سے لت پت ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکیں ۔

مسخ لاشیں ایک خاندان یا ایک قبائل کی نہیں ہے بلکہ پورے بلوچستان کے ماں، بیٹا، بیٹی ہیں۔

کہنے کو یہ ایک قبائلی سردار اور ریاستی نمائندہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک ریاستی درندہ ہے جو کئی بے گناہ و معصوم لوگوں کا قاتل ہے لیکن ان سب جرائم میں ریاست کی دست شفقت اس کے سر پر ہر وقت برابر رہتی آرہی ہے ۔

ایک سرکاری سردار کھیتران نہیں ہے بلکہ ایسے بہت سارے ریاست و سامراج کے پیدا کردہ سردار ،نواب، میر و ٹکری وغیرہ ہیں جن کے ہاتھ بےگناہوں کے خون سے رنگین ہیں۔ لیکن ہم سب خاموش مردہ لاش کی صورت اختیار کر کے بےخبری و بےحسی میں دامن آلودہ پھر رہے ہیں ۔ رسماً کچھ دنوں کےلیے سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا کرتے ہیں عملاً میدان میں قدم رکھتے ہوئے قدمیں ڈگمگاتے ہیں محلہ در محلہ، قصبہ در قصبہ، شہر در شہر، گاؤں در گاؤں میں کھیتران جیسے ریاستی قصائیوں کو مکمل سرکاری سرپرستی حاصل ہے ۔

کوہ سلیمان کے دامن سے لیکر رگڑو کے گھٹ غاروں تک بلوچ عوام کا خون رستا ہے ۔ گوادر سے لیکر گڈانی کے ساحل تک مسخ شدہ لاشوں کی بوٹیوں سے گِدھیں بھی اکتا کر سر جھکائے بیٹھے ہیں ۔

کہیں سردار، کہیں نواب، کہیں ڈیتھ اسکواڈ کے درندے، کہیں میر، کہیں ٹکری کے روپ میں، تو کہیں اسمگلر، ٹارگٹ کلرز اور ریاستی مشینری سے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ۔

یہ حاکم کی جابرانہ پالیسی ہے کہ خون کو خون سے دھوتا پھرتا ہے ۔ برمش واقعہ ہو یا حیات بلوچ کی شہادت یا حفیظ بلوچ کو جبراً لاپتہ کرنے کی ناکام کوشش اور حالیہ دنوں بارکھان سے ملی مسخ شدہ لاشوں کا واقعہ اور چند دن پہلے جبری طور پر لاپتہ ماھَل بلوچ کی جبری گمشدگی کا مقصد زمینی حقائق سے عوامی نفسیات کو موڑ دے کر دوسری جانب اپنے ناپاک ارادے کو تکمیلی مرحلے تک پہنچانا ہے۔

بلوچ قومی تحریک کے بیانیے کو روکنے کےلیے مختلف طریقوں سے عوام کو الجھاکر اور اصل حالات کی مسخ صورت پیش کرنے کےلیے ریاست اپنی طرف سے ہر ممکن ہتھکنڈہ استعمال کر رہی ہے۔

بلوچستان کے تمام قبائلی و مذہبی جماعتوں و رہنمائوں کا مجرمانہ خاموشی روز روشن کی طرح بلوچستان کے لوگوں کی مظلومیت کو ظاہر کرتی ہے کہ یہاں سرداروں ،جاگیرار ، میر ، ریاست سب ایک صف میں کھڑے عام بلوچستان کے لوگوں کی خون کو جونک کی طرح پیتے ہیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں