بلوچ قوم کی بکھری ہوئی قوتوں کو یکجا کر کے ایک قومی و انقلابی کردار میں ڈھالنا ہوگا۔ چنگیز بلوچ

275

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سینٹرل کمیٹی کا دو روزہ اجلاس 25، 26 فروری کو زیر صدارت مرکزی چیئرمین چنگیز بلوچ منعقد، نیشنل اسکول کے انعقاد اور بامسار کی اشاعت سمیت اہم فیصلہ جات لیے کئے۔

بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کا دو روزہ اجلاس شال میں زیر صدارت چنگیز بلوچ منعقد ہوا جب کہ اجلاس کی کارروائی مرکزی سیکریٹری جنرل اورنگزیب بلوچ نے چلائی ۔ دو روزہ مرکزی اجلاس میں تناظر، سیکریٹری رپورٹ، تنظیمی امور، تنقید برائے تعمیر اور آئندہ کا لائحہ عمل زیر بحث رہے۔

اجلاس کا باقاعدہ آغاز بی ایس او کے مرکزی چیئرمین کے افتتاحی کلمات سے ہوا۔ جس میں انہوں نے بلوچستان میں حالیہ تحریکوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ وقت ہے کے بلوچ قوم کی بکھری ہوئی قوتوں کو یکجا کر کے ایک قومی و انقلابی کردار میں ڈھالا جائے، عوام کے مختلف بکھرے ہوئے احتجاجات کو ایک قومی سیاسی تحریک کی شکل دے کر آگے بڑھانا ہوگا تاکہ ہم اپنے قومی مقاصد تک پہنچ سکیں۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ قوم دوست جماعتیں اپنے ذاتی و گروہی مفادات اور کم نظری سے نکل کر قومی سطح پر سوچنا شروع کریں۔

انہوں نے کہا کہ بی ایس او کے انقلابی ساتھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ بی ایس او کی نظریاتی بحالی اور خود مختاری کا جو بیڑہ اٹھایا گیا تھا، ہم اپنی جہد میں ثابت قدمی سے عمل پیرا ہیں۔ آج بی ایس او نہ صرف آزاد اور خود مختار ہے بلکہ اپنے اصل انقلابی نظریات کے ساتھ بحال ہو کر منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ تنظیمی اداروں کی بحالی، معروض کا درست تجزیہ اور تناظر کے گرد درست پوزیشن پر کھڑے ہو کر فیصلہ جات لینا اصل چیلنج ہے جس میں اب تک بی ایس او کامیاب رہی ہے۔

چنگیز بلوچ نے کہا کہ آج اس درست پوزیشن اور فیصلہ جات کی بنیاد پر نہ صرف بی ایس او کے کیڈر کا اعتماد ادارے پر بحال ہوا ہے بلکہ تنظیم اور عوام کے جدلیاتی رشتے میں سیاسی حلقوں بالخصوص عوام کا اعتماد بی ایس او کی آزادانہ اور خود مختارانہ حیثیت پر بحال ہوا ہے جو کہ ہمارے انقلابی عمل کو مزید طاقت بخشے گا۔

عالمی تناظر پر بات کرتے ہوئے مرکزی عہدیداروں نے کہا کہ عالمی سامراجوں کی صف بندیاں مکمل ہو کر باقاعدہ جنگی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ ایک طرف یوکرین جیسی سامراجی عزائم کے تکمیل کی جنگیں ہیں جن پر اربوں کھربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں جب کہ دوسری جانب بھوکی ننگی انسانیت ہے جن کے پاس ان سامراجی قوتوں کے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں۔ سابق برطانوی وزیر اعظم یوکرینی حکومت کو جنگی جہاز دینے کی فرمائشیں کر رہا ہے مگر دوسری جانب گزشتہ دو سالوں سے سراپا احتجاج برطانوی ہیلتھ کئر ورکرز کو بنیادی سہولیات دینے سے بھی قاصر ہے۔

مرکزی رہنماؤں نے کہا کہ پاکستان بھی انہی سامراجی طاقتوں کی ایک کالونی ہے جس میں اب تک انہی آقاؤں کی منشا سے سب کچھ طے ہوتا آرہا ہے۔ جہاں عالمی سرمایہ دارانہ نظام بُحرانات کی لپیٹ میں ہے تو وہیں پر ایسی نیوکالونیل ریاستیں بھی اس بحران کی زَد میں آ کر زمین بوس ہونے کو ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسی ریاست جو ہمیشہ سے سامراجی پےرول پر کام کرتی رہی ہے اور اپنے ہمسایہ ممالک میں جنگ سے فائدہ اٹھایا ہے اس کیلئے معاشی استحکام ناممکن ہوچکا ہے۔ پاکستان میں ہر پل گہرا ہوتا ہوا معاشی و سیاسی بحران کسی بھی وقت مکمل خانہ جنگی کی صورتحال اختیار کرسکتا ہے۔

مرکزی رہنماؤں نے کہا تمام تر بحرانات معاشی مشکلات کے باوجود بلوچ وطن پر کالونیل حکام کا برپا کردہ ظلم و جبر کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ آئے روز بلوچ وطن لہولہاں کیا جا رہا ہے، جبری گمشدگیاں شدت اختیار کر رہی ہیں جس سے اب بلوچ خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت تمام تر ریاستی ادارے بشمول انتظامیہ، عدلیہ، میڈیا و مقننہ بلوچ نسل کشی کو بڑھاوا دینے میں مشغول ہیں۔ ایسے میں ریاستی پُشت پناہی کے سبب قبائلی و سرداری نظام بھی اس سفاکیت کو مسلسل بڑھاوا دے کر بلوچ کے سینے کو چیرنے و اور لہو لہاں کرنے میں پیش پیش ہے۔ جہاں ہم بیرونی حاکم کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں تو ساتھ ساتھ ہمیں ان مقامی آلہ کاروں کے ساتھ بھی ایک لڑائی لڑنی ہوگی نہیں تو قبائلی و سرداری نظام کا ناسور ہماری جڑیں ہمیشہ کھوکھلا ہی رکھے گا اور ہم ان کے جبر کا شکار مسلسل ہوتے رہیں گے اور وہ وطن فروشی کی نئی داستان رقم کرتے رہیں گے۔

“خواتین کی جبری گمشدگی اور قتل عام کے واقعات کا پیش آنا اور بارکھان میں پیش آنے والا واقعہ نہ اس نظام کی پہلی واردات ہے نہ ہی آخری واردات ہوگی، جب تک یہ نظام قائم ہے یہ اس طرح کے شرمناک جبری اعمال مسلسل کرتا رہے گا، بلوچ سماج کو کچلتا رہے گا جس میں عورت اس کا پہلا اور آسان ترین شکار ہے۔”

تنظیمی امور پر بات کرتے ہوئے عہدیداروں نے کہا کہ بی ایس او کا ان مظالم کے باوجود مسلسل عوام میں موجود رہنا اور ان کی رہنمائی کرتے رہنا ایک امید کی کرن ہے۔ تحریکیں مسلسل اٹھتی رہیں گی مگر ان تمام تر تحریکوں کو جوڑ کر قومی سطح پر مزاحمتی تحریک تشکیل دینا ہی اصل امتحان ہے اور کامیابی کی اولین شرط بھی۔

اس کے ساتھی ہی مختلف ایجنڈوں پر مباحث کے ساتھ تنظیمی امور اور آگے کے لائحہ عمل پر بات ہوئی۔ جس میں مرکزی وائس چیئرمین جیئند بلوچ کو شو کاز نوٹس جاری کیا گیا اور مرکزی ممبر مقصود بلوچ کو معطل کیا گیا اور دونوں پر جرمانے عائد کیے گئے۔ بعد ازاں نیشنل سکول کو مارچ میں منعقد کرنے کا فیصلہ لیا گیا اور بامسار کے نئے شمارے کی اشاعت کا بھی فیصلہ لیا گیا۔