چلو سب مل کر بڑے پگڑی پہن کر کلچر ڈے مناتے ہیں ۔ مزار بلوچ

499

چلو سب مل کر بڑے پگڑی پہن کر کلچر ڈے مناتے ہیں

تحریر: مزار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہماری بہنیں ریاستی پولیس کے ہاتھوں زلیل ہورہی ہیں

بڑی سے بڑی پگڑیاں پہن کر کلچر ڈے منانا ہے

بلوچ ماؤں کو سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہے

چلو اٹھاؤ تلوار نکالو ڈی ایس ایل فوٹو نکالتے ہیں

ٹک ٹاک بنانا ہے کلچر ڈے منانا ہے۔

بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں گرائی جارہی ہیں تو کیا ہوا بڑے سفید شلوار پہن کر کلچر ڈے تو منانا ہے۔

اپنے اپنے علاقے کے کرنل و میجر کو راضی وخوش کرنا ہے . اُن کو اپنے صفوں میں جگہ دینے کے لیے ڈھول کی تھاپ پر ناچ و رقص کرنا ہے

اپنے سرزمین کے دشمن کو پاؤں میں بلوچی چَوّٹ ہاتھ میں تلوار سر پہ اجداد کی دستار رکھے جھک کر سلامی دینا ہے. کیونکہ ہمیں کلچر ڈے منانا ہے

ہمارے بلوچی کلچر سے نفرت کرنے والوں کو اپنا آقا مان کر اِن درندوں کے زیر سایہ (دکھاوے کی ارینج) کردہ کلچر ڈے تو منانا ہے.

سنو!

تم کیا اور کس امید سے دیکھ رہے ہو جو سرزمین ننگ و ناموس رسم و رواج جو عدل و انصاف وراثت میں ہمیں تھما کر گئے تھے

تو سنو!

اے نوری نصیر !

ہم بک گئے

قہار عبداللہ!

ہم جھک گئے

محراب خان!

ہم بزدل ہوگئے

حمل چاکر جیئند دودا!

ہم اغیار کے قدموں تلے بچھ گئے

شہباز اکبر!

ہمارا ننگ و ناموس کھو گیا

مجید بالاچ امیر و غفار!

ہمارے رگوں میں دوڑتا ہوا خون یخ و سفید ہوگیا۔

ہم تمہارا لاج نہ رکھ سکے

تو

تو کیا ہوا……!

اگر کسی بھائی کا مسخ لاش پھینکا جا رہا ہے تو کیا ہوا میرا بھائی تو نہیں ہے۔

اگر کسی بہن کو سڑکوں پر گھسیٹ کر بے آبرو کیا جا رہا ہے تو کیا ہوا میری بہن تو نہیں ہے۔

اگر کسی سفید ریش بزرگ یا والد کی پگڑی سرراہ اچھال کر ذلیل کیا جارہا ہے تو کیا ہوا وہ میرے بزرگ میرے والد تو نہیں ہیں

اگر اپنے لاپتہ بیٹے کی تصویر اٹھائے آنکھوں سے چھلکتی آنسوؤں کا بھرے بازار میں مذاق اڑایا جا رہا ہے

تو کیا ہوا وہ میری ماں تو نہیں ہے

اگر …. میری ماں بیٹے کی جدائی میں آنسو نہیں بہا رہی ہے

ابھی تک میری بہن دشمن کے ہاتھوں بے پردہ نہیں ہورہی ہے

میرا تو بھائی بھی لاپتہ نہیں ہوا ہے

میرا تو بیٹا یا بھائی مسخ لاش بن کر نہیں آیا ہے

تو کیوں میں اپنے لوگوں کو مارنے والے اِن وردی والوں کی طرف سے ایک دن کے لئے بلوچ نہ بنوں اور ان کے ساتھ مل کر کلچر ڈے نہ مناؤں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں