سانحہ توتک کو بارہ سال مکمل ہوچکے، کئی کارکنان اب تک لاپتہ ہیں۔ بی ایس او آزاد

389

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں سنگت نعیم بلوچ و سنگت یحیی بلوچ کے بارہویں برسی کے موقع پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ 18فروری 2011ء کو خضدار کے علاقے توتک میں قابض ریاستی فورسز نے بڑے پیمانے پر فوجی کاروائی کرکے 29 لوگوں کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا تھا جبکہ کارروائی میں بی ایس او آزاد کے دو سرگرم کارکن شہید سنگت تعیم بلوچ و سنگت یحیی بلوچ کو فائرنگ کو نشانہ بناکر شہید کیا گیا تھا ۔ فوجی کارروائی میں کئی افراد کے گھروں کو جلایا گیا اور عام افراد کو پکڑ کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور 29 سے زائد افراد کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا تھا جس میں بی ایس او آزاد سے وابستہ مقصود قلندرانی بھی شامل تھے جنہیں 26 جولائی 2011 کو شہید کرکے ان کی مسخ شدہ لاش پھینک دی گئی تھی ۔ توتک سے لاپتہ افراد میں سے کچھ لوگوں کو بعدازاں شدید ذہنی و جسمانی تشدد اور اذیت کے کچھ سال بعد رہا کیا گیا مگر آپریشن کے دوران درجنوں لاپتہ افراد میں سے اکثریت اب تک لاپتہ ہیں جن میں بی ایس او آزاد کے کئی ممبر و کارکنان شریک ہیں۔ توتک آپریشن آج بھی بلوچستان میں ظلم و جبر اور بربریت کی یاد تازہ کرتی ہے جہاں ریاستی فورسز سرعام اپنی ننگی جاریت کا مظاہرہ کرتی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ توتک میں فوجی آپریشن، قتل و غارت اور بلوچوں کی سنگین نسل کشی کے بعد توتک کو مکمل طور پر مذہبی انتہاء پسند اور ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ شفیق مینگل کے حوالے کر دیا گیا تھا جو آج تک اسی کے حوالے ہے نے جنھوں نے بعدازاں توتک کو مقتل گاہ بنایا ہوا ہے ۔ شفیق مینگل اور پاکستانی فورسز کی ظلم و بربریت سے تنگ آکر ہزاروں خاندان نکل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ شفیق مینگل کی سربراہی میں خضدار اور گرد و نواح سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے سینکڑوں افراد کو اجتماعی قتل کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اس کی واضح مثال 2014 کو توتک سے ملنے والی اجتماعی قبریں تھیں جہاں ایک سو ستر سے زائد لاشیں دریافت ہوئی تھیں جنہیں مختلف اوقات میں جبری طور پر گمشدہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں اجتماعی قبر میں دفنائی گئی تھیں۔ شفیق مینگل کے جرائم یہاں تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے بلوچستان بلخصوص خضدار میں ننگی جاریت کا مظاہرہ کیا ہے۔ عام عوام کا قتل عام، مذہبی انتہاء پسندی کو ہوا دینا اور خانہ جنگی پیدا کرنے کی کوشش سمیت شفیق مینگل نے اپنے ڈیتھ اسکواڈ سے ہزاروں گھروں کو اجاڑدیا ہے۔ آج بھی وہ ریاستی آلہ کار کے حیثیت سے بلوچستان میں سنگین جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے۔

ترجمان نے بیان کے آخر میں شہید ساتھویں کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک انسانی حقوق سے وابستہ تنظیمیں اور انٹرنیشنل کمیونٹی انسانی بنیادوں پر بلوچستان میں مداخلت کرکے پاکستانی فورسز اور ان کے بنائے گئے ڈیتھ اسکواڈز کو جوابدہ نہیں کرتا پاکستانی فورسز بلوچستان میں اپنی ننگی جاریت کو جاری رکھیں گے۔ عالمی اداروں کو بلوچستان میں جاری سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے مداخلت کرنا چاہیے تاکہ بلوچستان میں جاری سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کا روک تھام ممکن ہو سکیں۔