بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جہانزیب بلوچ نے دورہ تربت کے موقع پر میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مردم شماری ایک اہم موقع ہے، ریاستیں مردم شماری کے مطابق منصوبہ بندی کرتی ہیں اور اکائیوں میں آبادی کے مطابق وسائل کی تقسیم کاری کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بی این پی اس مردم شماری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی البتہ مردم شماری کے حوالے سے بی این پی کے کچھ خدشات اور کچھ مطالبات ہیں جنہیں سامنے لارہے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ پانچ سال قبل کی مردم شماری میں بھی ہمارے خدشات تھے، ہمیں مردم شماری و خانہ شماری کے لیے مناسب وقت نہیں دیا گیا تھا اور سیکیورٹی کے نام پر عملے نے خود مردم شماری کرائی بلکہ جو تربیت یافتہ عملہ تھا اسے سائیڈ پر رکھا گیا، ہمیں یہ امید ہے کہ اس بار سیکیورٹی کے ادارے اپنی اصل ذمہ داری نبھا کر مردم شماری کے عمل میں براہ راست حصہ نہیں بنیں گے۔
بی این پی رہنما نے کہا کہ فروری کو ہونے والے مردم شماری کا مقررہ وقت مناسب نہیں کیوں کہ بلوچستان کے سرد علاقوں میں میں سردی کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد گرم علاقوں میں جاچکی ہے اس طرح وہ شماری میں رہ جائیں گے، ہمارا مطالبہ ہے کہ کہ مارچ تک اسے بڑھایا جائے، اس کے علاوہ غیر ملکی مہاجرین یا آباد کاروں کے متعلق بھی خدشات ہیں جس پر بلوچستان کی دیگر تمام سیاسی قوتیں بھی اپنے خدشات کا اظہار کرچکی ہیں اگر مہاجرین کو مردم شماری میں شامل کیا گیا تو بی این پی سخت احتجاج کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ ان خدشات کے علاوہ مردم شماری کے عمل کو سراہتے ہیں اور اس کا حصہ بن کر سپورٹ کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ مکران میں حالات کی خرابی کے باعث دیہی علاقوں سے لوگ ہجرت یا نقل مکانی کرکے شہری علاقوں میں چلے گئے ہیں، دیہی علاقوں میں آج بھی معمولات زندگی متاثر ہیں یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کو مردم شماری میں حصہ دار بنانے کے لیے انتظامات کیے جائیں کیونکہ اکثر اوقات ہمارے علاقوں میں کشمیری یا دیگر علاقوں کے لوگوں کو مردم شماری یا الیکشن میں حصہ دلانے کے لیے انتظامات کیے جاتے ہیں اسی طرح ہمارے لوگوں کو بھی ایسی سہولت فراہم کی جائیں۔
انہوں نے کہاکہ پنجگور میں مردم شماری کے دوران حقیقی آبادی کو کم شمار کیا گیا جس سے ایک صوبائی سیٹ کم ہوا۔
انہوں نے کہاکہ بی این پی بلوچستان میں رہنے والی تمام اقوام کا احترام کرتی ہے پشتون سمیت دیگر اقوام کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ ہمارے لیے کوئی خطرہ نہیں بلکہ اصل خطرہ مہاجرین ہیں جس پر تمام بلوچستان کے اقوام متفق ہیں۔ افغان مہاجرین نہ صرف امن و امان کےلیے مسئلہ ہیں بلکہ مقامی پشتون آبادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں مقامی پشتون آبادی کی زمین، تعلیم اور کاروبار پر افغان مہاجرین کا قبضہ ہے۔ افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے بی این پی کا ایک واضح موقف ہے انہیں باعزت طریقے سے اپنے ملک لیجانے کے انتظامات یقینی بنائی جائے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں سیاسی انجینئرنگ کے خدشات موجود ہیں اس کے باوجود کہ مقتدر قوتوں نے اس بار الیکشن میں دور رہنے کی یقین دہانی کرائی ہے مگر یہاں پر ایک کمزور حکومت خود مقتدر قوت کے لیے زیادہ سازگار ہے اس لیے ان کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ سیاسی جماعتوں کو سائیڈ کرنے کی کوشش کرے۔
انہوں نے کہاکہ بی این پی کے نزدیک وزارت یا سیٹوں کی اہمیت نہیں ہے بلکہ تقسیم آبادی اور قومی شناخت کا مسئلہ سب سے اہم ہے اس لیے ہم قومی شناخت، وسائل کی برابر تقسیم اور معدنیات پر تصرف کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اس مقصد میں بی این پی نے طویل قید و بند اور قربانیاں دی ہیں۔