درخت جیسا اگ رہا ہوں
تحریر: ایس کے بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ تقریباً دو ہزار انیس کی بات ہے، جب مجھے اس تنظیم کی پیج کو لائک کرنا پڑا کیونکہ میں حیران تھا کہ ایک ایسی تنظیم جو خضدار جیسے شہر میں مستقبل کے نام پر چل رہی ہے تو اس میں ضرور کچھ تو ہے۔ لیکن پرسوں سے دیکھ رہا ہوں کہ جاگیر دار و مسلط کردہ طبقے انتظامیہ کے نام پر “ایس ایس ایف” کے کارکنوں کو ایک بک فیئر انعقاد کرنے کیلے نہیں چھوڑ رہے ہیں اور انہیں دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر انہوں نے بک فیئر لگا بھی لیا تو اپنے زمہ دار خود ہونگے۔
میں بتاتا چلوں کہ بلوچستان میں ظلم و جبر اور کشت و خون کی لہر پچھتر سالوں سے چلی آرہی ہے لیکن خضدار جیسے شہر میں دو ہزار تیرہ کے بعد سب لوگوں میں ایک گونگے، بہرے اور اندھے پن کا احساس نظر آرہا ہے۔
سب کو پتہ ہوگا کہ خضدار وہ شہر ہے جہاں ہر گلی اور کھیت و گھر میں دو مادری زبانیں یعنی بلوچی اور براہوئی بولی جاتی ہیں۔ میں نے خود دیکھا اور اپنی ٹوٹے پھوٹے الفاظ بولتا رہا، جب دوستوں کے ساتھ پانچ دن تک وہاں یونیورسٹی و بازار اور کالجوں کی ماحول کو دیکھا۔
خضدار میں جو چیز مجھے زیادہ بری لگی، وہ سیاہ کانچ گاڑیاں اور الگ الگ رنگ و نسلی جھنڈے تھے۔ وہاں ہر گلی میں پچاس نام نہاد مذہبی و سیاسی جماعتوں کے پچاس جھنڈیاں نظر آتی ہیں، چاروں طرف چوکیاں قائم ہیں اور کسی کو قومی ملکیت کی طرف توجہ حاصل نہیں۔
میں نے دیکھا یونیورسٹی میں ایک بلوچی ڈانس یا بلوچ قومی ترانا پر چرچا ہوتی ہے کہ آپ بلوچ طلبا و طالبات کسی اور نظریہ سے وابستہ رہے ہیں کہ بلوچی ترانا گاتے ہو۔
روڑوں پر سیاہ کانچ گاڑیاں نظر آتے ہیں جن میں سرداروں اور نوابوں کے بڑے پونچھ والے فرزندان ہیں۔
ہر دکان کی دیوار پر کسی قبیلہ یا سردار کا نام لکھا ہے جو اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں۔ یونیورسٹی میں ہر طالب علم کے پاس دس سگریٹوں کی پاکیٹس نظر آتی ہیں۔ یونیورسٹی کے ہر کمرے کے سامنے ایک کیمرہ لگا ہوا ہے۔ لڑکیوں کو فنکشنز و باقی تعلیمی و سماجی پروگراموں میں جانے سے منع کرتے ہیں۔ ہر طرف قبیلہ و سرداروں کی نعرہ بازی چل رہی ہیں۔
باقی کچھ ہی ایسے لوگ ہونگے جو اپنے قوم کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن وہاں کے لٹیرے سر اٹھانے نہیں دیتے اور کچھ ہی لوگوں نے وہاں کے باسیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
کچھ ایس ایس ایف کارکنوں کی طرح کے باشعور نوجوان و نڈر بلوچ فرزندان نظر آتے ہیں، جو کتابوں کی دنیا کو دولہے کی طرح سجانا چاہتے ہیں، اپنے شعور و آگہی کو نسلوں تک پھیلانا چاہتے ہیں۔ یہی تو ہماری نوجوانوں کی خوبصورتی ہے کہ اس دور حاضر میں اپنی سوچ و فکر حمل و جیئند اور بیبرگ و شیہک کی طرح دیگر لوگوں تک پہنچانا چاہ رہی ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں