کوئٹہ میں قائم بلوچستان سے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کی بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 4908 دن ہوگئے۔ڈیرہ غازی خان سے وقار بلوچ، شعیب بلوچ، ابوبکر بلوچ سمیت دیگر مرد اور خواتین ایکٹویسٹ نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
کیمپ آئے وفد سے گفتگو میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچستان میں ریاست پاکستان نے ننگی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے صوبائی اور وفاقی حکومتیں جبری لاپتہ افراد کے مسئلے پر بار بار اپنے بیانات تبدیل کرتے رہتے ہیں لاپتہ افرار کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ پاکستانی اداروں کے پاس نہیں ہیں حالانکہ حقیقت میں پچاس ہزار سے زائد افراد پاکستانی عقوبت خانوں میں زیر حراست ہیں اور ہر روز موت کا سامنا کر رہے ہیں لیکن پاکستانی حکومت انتہائی مجرمانہ انداز میں اس معاملے پر انکاری ہے-
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جونکنے کیلئے پاکستانی حکومت نے متعدد اجلاس منعقد کیے اور کء کمیٹیاں بھی تشکیل دیں لیکن کوئی کمیٹی آج تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کرسکی ہے کیونکہ بلوچستان ایک چھاؤنی کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں تمام فیصلے فوج اور ایجنسیوں کے ہاتھوں میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہاں فوج اور اسکے حواریوں کی ننگی جارحیت کے خلاف کوئی آواز اٹھاے تو اسے نشان عبرت بنایا جاتا ہے دوسری جانب انسانی حقوق کے عالمی اداروں کا کردار ماسوائے سالانہ رپورٹوں کے کچھ نہیں ہے بلوچستان میں کوئی بھی میکنزم نہیں ہے اور آج تک موجودہ حالات کو کسی نے مانیٹر نہیں کیا ہے۔
ماماقدیر بلوچ نے مزید کہا کہ ایک طرف ریاستی پارلیمان جبری گمشدگیوں کے روک تھام اور جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے کمیشن اور کمیٹی قائم کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف درجنوں افراد کو اسی ہفتے ہی اٹھا کر جبری لاپتہ کیا گیا ہے، جس میں گذشتہ روز خضدار سے دو طالبعلم سراج نور اور عارف ھمبل بھی شامل ہیں جن کے لواحقین سراپا احتجاج ہیں۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کو کوئی بھی قانونی مدد حاصل نہیں ایک انتہائی اہم بات یہ ہے کہ ایک انسانی حقوق کے ادارے نے جو اعداد شمار مسنگ پرسنز کے حوالے شائع کیا تھا اسے ہماری تنظیم رد کرتی ہے اس صورت حال میں آئے روز بلوچستان میں طلباہ و وکلاہ ڈاکٹرز سیاسی کرکن اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں جبری اغواہ اور شہید ہوتے ارہے ہیں اس لیے بلوچ قوم کو پاکستانی عدلیہ اور دیگر اداروں سے کوئی امید نہیں۔