بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں آج ہفتے کے روز بازاریں کھلی اور لوگ سودا سلف کی خریداری میں مصروف ہیں۔
تاہم شہر میں سیکورٹی کی بھاری نفری اور بکتر بند گاڑیوں کی گشت جاری ہیں جبکہ بے یقینی کی صورتحال برقرار ہے۔
حق دو تحریک کی سربراہ ہدایت الرحمان بلوچ نے آج اپنے ایک وڈیو پیغام میں گرفتار کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے حالات خراب کیے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین پر ہاتھ اٹھانے والے پولیس اور ایف سی کے افسران کو معاف نہیں کرینگے۔
ہدایت الرحمان نے کہا کہ ایف سی اور پولیس نے گھروں میں لوٹ مار کرکے کئی موبائل فون اور دیگر قیمتی اشیاء چوری کیے۔
انہوں نے کہا کہ گوادر اور کیچ میں ایف سی اور پولیس کی غنڈہ گردی جاری ہے، چند دنوں بعد اس ریاستی غنڈہ گردی کے خلاف آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرینگے ۔
ایک مقامی صحافی نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ حکومت نے اس تحریک کے سرکردہ لوگوں کو گرفتار کیا ہے اب لوگوں کو دوبارہ منظم کرنا مشکل ہے تاہم حکومت کو خواتین کے جمع ہونے کا خوف ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان نے بلوچستان حکومت کے بیانات اور موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آج چھٹی روز گوادر محاصرے میں ہے اور انٹرنیٹ سمیت سوشل میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر سب کچھ کنڑول میں ہے تو انٹرنیٹ کیوں بند ہے۔
انکا کہنا تھا کہ حکومت ہمیں اشتعال دلانا چاہتا ہے لیکن ہم پرامن انداز میں اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے باہر سے آئے ہوئے قابض کے خلاف جمہوری جدوجہد میں ساحل اور وسائل کی دفاع کرینگے۔
گذشتہ روز ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی گوادر میں احتجاجی مظاہروں کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور ہنگامی قانون کے نفاذ کی خبروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو پرامن طریقے سے عدم اطمینان کا اظہار کرنے کا حق ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حق کو آسان بنائے۔