چے گویرا کی ڈائری
تحریر: ظہیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
چے گویرا کی ڈائری ایک کتاب نہیں بلکہ اسکی شخصیت اور انقلاب سے محبت کا ایک عکس ہے- ایک دمے کا مریض ایک ملک میں کامیاب انقلاب برپا کرنے کے بعد ایک ایسے ناکام سفر پر نکلا جس کا انجام موت تھا اور وہ اس موت و تکالیف سے آشنا تھا وہ کہتا تھا کہ اگر انقلاب حقیقی ہو تو انقلاب میں یا تو جیت ہوتی ہے یا پھر موت مقدر بنتی ہے ،فتح کے منزل تک پہنچتے پہنچتے ہمارے کئی ساتھی موت کی گود میں جا سوئے-
اس کتاب کا پیش لفظ عالمی رہنما فیڈل کاسٹرو نے لکھا ہے جبکہ یہ کتابmarxists.org کی ویب سائٹ سے ملا جسے مطالعہ کرنے کے بعد گیارہ مہینے کی روداد سے روشناس ہونے کا موقع ملا جو ایک پرتکلیف سفر اور ایک انقلابی کی داستان ہے-
ایک انقلابی کہاں بھی ہو اس کی سوچ اور فکر میں چی بستا ہے کیونکہ چی کی زندگی کا بس ایک ہی مقصد ہے اور وہ مقصد ہے انقلاب اور اس انقلاب کے لئے وہ ہر طرح کی قربانی کا جذبہ رکھتا تھا-
اس ڈائری کا مختصر جائزہ لینے سے قبل چی کے بارے میں جاننا ضروری ہے کیونکہ شخصیت کو سمجھنے کے بعد ہی اسکے کردار کو سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی-
ڈاکٹر ارنسٹو چی گویرا چودہ جون انیس سو اٹھائیس کو ارجنٹائن کے مشہور شہر وساریو میں پیدا ہوئے- دو سال کی عمر میں اسے دمہ کا مرض لاحق ہوگیا تھا-پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا چی گویرا نے تیسرے درجے تک باقاعدہ تعلیم حاصل کی لیکن پانچویں اور چھٹے درجے تک بےقاعدگی سے تعلیم حاصل کی- اس نے اپنے قوت ارادی سے دمے پر قابو پالیا- اس کا والد ایک روشن خیال اور ماں ایک کمیونسٹ تھی اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چی نے اپنے بچپن سے ہی بہت کچھ سیکھ لیا تھا-اس کے گھر والوں کی خواہش تھی کہ وہ انجئینر بنے لیکن اس نے طب کا پیشہ اختیار کرلیا اور انیس سو پچپن میں ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی – 1953 کو گوئٹے مالا پہنچا جہاں اسوقت انقلابی حکومت تھی لیکن جلد ہی امریکہ نے اپنے حواریوں کے ساتھ مل کا تختہ الٹ دیا اور چی کو میکسیکو جانا پڑا جہاں اسکی ملاقات راول کاسٹرو اور اسکی وساطت سے فیڈل کاسٹرو سے ہوئی اور اس نے کیوبن انقلاب کو بطور ڈاکٹر جوائن کرلیا- کیوبن انقلاب کی کامیابی کے بعد وہ کانگو روانہ ہوا اور پھر بولیویا پہنچا اور ایک سال تک وہاں مسلح جدوجہد کی اور وہیں گرفتار ہوا-
چی کی ڈائری پر ایک نظر –
چی صرف ایک ڈاکٹر یا جنگجو ہی نہیں تھا بلکہ سیاسی شعور سے لیس ایک بین الاقوامی علامت تھا انقلاب اور انقلابی اصولوں کا- وہ اس ڈائری میں ان یاداشتوں کو بیان کرتا ہے کہ انقلاب برپا کرنے کے لئے انقلابیوں نے کتنی تکالیف برداشت ہیں،بھوک اور موسمی صورتحال کے علاوہ کچھ سیاسی رویوں نے ان کے ساتھیوں کے حوصلوں کو پست کرنے میں کتنا کردار ادا کیا – اس کا مشن یہ تھا کہ فولاد کی طرح مضبوط ایک گوریلا دستہ تیار کرنا ہے جو دیگر لوگوں کے لئے ایک مثال ہو اور مشن کی تکمیل مطالعے کے بغیر ناممکن ہے وہ ایک سیاسی رہنماء کی طرح اپنے گوریلوں کو سیاسی لیکچر دیتا،انہیں جنگ کے حقائق سے آگاہی دیتا اور نظم و ضبط پر زور دینے کی ہمیشہ تلقین کرتا رہتا تھا-
اس نے نہ صرف دوران جنگ فیڈل کاسٹرو کے لئے پیغامات بھیجے بلکہ سارتر اور رسل کو بھی خطوط لکھ کر بولیویا کے انقلاب کی مدد کے لئے بین القوامی فنڈ قائم کرنے پر زور دیا- اس نے دوسرے انقلابی دستوں سے بھی رابطہ کیا تاکہ مذید گوریلوں کا حصول ممکن ہو اور سامان اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے-
کسانوں کے سامنے انقلابی مہم اور مقاصد پر تقریر ،کان کنوں کی تحریک کو منظم بنانے کی کوشش ،نظم و ضبط کی سست رفتاری پر تنقید ،ساتھیوں کی حوصلہ افزائی ،شہروں سے رابطوں کی بحالی اور دوستوں کے حوصلوں کو بلند کرنا نہ صرف اسکے سیاسی شعور کا ثبوت تھا بلکہ ایک سیاسی و مسلح رہنماء بن کر انقلاب کی قیادت اور اسکے انجام و منطقی انجام سے واقف تھا۔
وہ کہتا ہے اس قسم کی جدوجہد اور کش مکش ہمیں نہ صرف یہ موقع دیتی ہے کہ ہم سچے اور صحیح انقلابی بنیں یا افضل ترین انسان بنیں -وہ مذید کہتا ہے کہ آدمی اپنے ساتھی سے بڑھ کر انقلابی بنیں اور ان کے لئے مثال قائم کریں-
چی گویرا روزانہ کی بنیاد پر ڈائری لکھتا اور مہینے کے آخر میں تجزیہ پیش کرتا ،وہ اپنے دمے کی صورتحال ،فوجیوں کے ساتھ جھڑپوں کے واقعات اور ان مشکلات کو بھی قلمبند کرتا جو دوران جنگ پیش آئے ،وہ کہتا کہ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پیشاب بھی پیے ،جلاب بھی ہوا ،ساتھیوں کے بلند اور پست حوصلوں کے ساتھ ان کی لاشیں بھی دیکھی اور کچھ کو سرکار کے سامنے سرینڈر ہونے کا بھی نظارہ دیکھا-
چی گویرا ان کمزوریوں کو بھی تحریر کرتا جو تنظیم کے فقدان اور احساس ذمہ داری کی کمی کی وجہ سے پیش آئے ،کسانوں میں تحریک کی بنیاد نہ ہونے کی وجہ بھی لکھتا وہ کہتا کہ جنگ میں عظیم اور اہم فیصلے لازم ہوتے ہیں-
جبکہ چی گویرا نے اپنی ڈائری میں ریاستی پروپگینڈے کا بھی ذکر کیا جو وہ دوران جنگ من گھڑت خبریں چلا کر پھیلاتے ،انہوں نے ہوائی جہازوں کے ذریعے پمفلٹ پھینکے،مجھے کئی مرتبہ ہلاک ظاہر کیا اور انعام کا بھی اعلان کیا- وہ ان تمام پروپگینڈوں کو نفسیاتی حربوں کا نام دیتاہے جو گوریلوں کے بلند حوصلوں کو ختم کرنے کے لئے کئے جارہے ہیں-
ڈائری کے اختتام میں چی کا فیڈل کاسٹرو اور اپنے بچوں کو لکھے گئے خطوط بھی اس مختصر کتاب کا حصہ ہے-
یہ خطوط دنیا کے عظیم ترین تحریرات میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ ایک آئیڈیل شخص ،ایک درد مند انسان اور درد دل انقلابی اپنے ساتھی اور بچوں سے مخاطب ہے اس خطوط میں اسکی سیاسی شخصیت کی ایک جھلک اور نظریات سے وفادار ہونے کا ثبوت ملتا ہے-
مختصر یہ کہ چی گویرا ایک مکمل انقلابی اور انقلابی اصولوں کے لئے قربانی دینے والا رہنماء تھا جس کی نظر میں افراد و اسلحہ کی قلت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی بلکہ جو سوچتا اس پر عمل کرتا – ایک گوریلا جنگجو اور جنگ سے متاثرہ افراد کے لئے جنگ کے رموز کو سمجھنے اور گوریلا جنگ کے اصولوں سے واقفیت کے لئے لازم ہے کہ چی گویرا کا مطالعہ کیا جائے کیونکہ چی کے نظریات اور اصول ہر زمانے میں قابل قبول ہے-
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں