پاکستان بلوچستان میں منظم نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے – جرمنی مظاہرہ

355

جرمنی کے شہر گوٹنگن میں عالمی یوم انسانی حقوق کی دن کی مناسبت سے جن، جیان ، آزادی، جدوجہد آزادی اور خود ارادیت کی حمایت میں ٹرانس نیشن مظاہرہ کیا گیا۔

اس مظاہرے کا اہتمام آزادی کی جدوجہد کے لیے بین الاقوامی اتحاد جس کی بنیاد گوٹنگن میں بائیں بازو کے کئی گروپوں اور کمیونٹیز نے رکھی تھی، نے کیا۔

اس موقع پر مخلتف زبانوں میں موسیقی چلائی گئی، مظاہرین نے “جن، جیان آزادی – خواتین، زندگی، آزادی” اور “بین الاقوامی یکجہتی کی حمایت” جیسے نعرے لگائے۔

منتظمین نے کہا کہ آج کے مظاہرے کی وجہ کشیدہ عالمی سیاسی صورتحال ہے جو دنیا کی مختلف خطوں میں ہونے والی حالیہ بغاوتوں میں خاص طور پر نظر آتی ہے، جنہیں اکثر حکام کی جانب سے بے دردی سے دبایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قتل، جنگ، بھوک، استحصال اور ماحولیاتی تباہی اس وقت دنیا کے تمام حصوں میں غالب ہے۔ یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہیں۔ امریکہ، یورپ، روس اور چین جیسی ریاستیں مل کر اپنی متعلقہ اتحادی آپس میں طاقت تقسیم کریں۔

انہوں نے کہا کہ جبر ہر جگہ محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن خاص طور پر عالمی جنوب ایران، کردستان، افغانستان ، ترکی اور بلوچستان میں طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ پالیسیاں اپنے استحصال کی منطق کے ساتھ، لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کی زندگی کی بنیاد کو تباہ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ایک ایسی تباہی جو روزانہ ہوتی ہے اور لوگوں کو بھاگنے پر مجبور کرتی ہے۔

مظاہرین نے کہا کہ نیٹو کا ساتھی ترکی روجاوا اور تمام کردوں کے خلاف طاقت استعمال کررہا ہے، جس میں وہ کرد آزادی پسندوں کے خلاف ممنوعہ کیمیائی ہتھیاروں کے بڑے پیمانے پر استعمال سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔

اس کے علاوہ مظاہرین نے ایران کی فسطائی حکومت کے خلاف بھی نعرے بازی کی کیے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت نے کردستان اور زاہدان میں کرد اور بلوچ آبادی میں قتل عام کیا ہے۔ صرف گزشتہ تین مہینوں میں ایران میں مظاہروں کے نتیجے میں 400 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 15000 دیگر کو قید کیا گیا ہے جن میں سے کئی کو سزائے موت کا سامنا ہے۔

مظاہرین نے کہا کہ افغانستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ نیٹو کے جنگجو ممالک 20 سالوں سے اپنی مجرمانہ کارروائیوں کو عالمی آبادی کے سامنے خواتین کی آزادی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ پھر اقتدار قاتل طالبان کے حوالے کر دیا گیا۔

انکا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت برسوں سے بلوچستان میں ایک منظم نسل کشی کررہی ہے۔ پاکستان میں 30,000 سے زیادہ بلوچ کارکنان کو سیکورٹی فورسز نے اغوا کر لیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ساجد حسین کو اپریل 2020 میں سویڈن اور کریمہ بلوچ کو دسمبر 2020 میں ٹورنٹو میں جلاوطنی کے دوراں قتل کیا گیا۔

اس موقع پر بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی جانب سے ارکان نے جرمن اور انگلش زبان میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا جس میں انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی بحفاظت بازیابی کے لئے لوگوں سے آواز اٹھانے کی اپیل کی گئی۔