بلوچستان اور فارس نقطہ نظر ۔ میرک بلوچ

498

بلوچستان اور فارس نقطہ نظر 

تحریر: میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

شاہ کا سخت موقف بھی علیحدگی پسندی کے جذبات جو دادشاہ کے 1957/59 کی بغاوت اور 1969/73 تک ہونے والی بغاوت کی صورت میں سامنے آئی، اس کو مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ شاہ کو فکر تھی کہ پاکستان کے بلوچ علاقوں میں بے چینی بلوچ مسئلے کو مزید ابتر کرنے کا باعث بنے گی۔ خصوصاً بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد اس کے علاؤہ ڈرامائی جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیوں سے خوفزدہ تھا اسے اندیشہ تھا کہ روس افغانستان میں قدم جمانے کے بعد پاکستان میں پہلے سے کہیں زیادہ قوم پرستوں کی امداد کرے گا اور اس کے ہمراہ ایران میں بھی بلوچ بے چینی کو ہوا دے گا۔ ایرانی بلوچستان کے مسئلے میں مزید بگاڑ سے بچنے کے لیے شاہ اس نتیجے پر پہنچا کے پاکستانی بلوچستان کو بھی ایرانی زیر انتظام علاقے کے برابر رکھا جائے۔

1973 کے بھٹو کے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی برطرف کرنے کے فیصلے کی کافی حد تک ذمہ داری شاہ پر عائد ہوتی ہے جس نے اس پر نہ صرف اس عمل کے لیے دباؤ ڈالا بلکہ بعد ازاں بلوچ بغاوت کو کچلنے کے لیے زمینی قوت کے ساتھ ساتھ فضائی طاقت کے استعمال پر بھی مجبور کیا۔ بھٹو نے اپنی 1977 کےانٹرویو میں بتایا کہ شاہ اس کے لیے نہ صرف زور دیتا رہا بلکہ اس کا رویہ دھمکی آمیز تھا اس نے ہمیں پہلے سے دی جانے والی امداد سے کہیں زیادہ کا وعدہ بھی کیا، اس کا خیال تھا کہ پاکستانی بلوچوں کو حق خود اختیاری دینا نہ صرف پاکستان کے لیے خطرہ کا باعث ہے بلکہ ایرانی بلوچوں کو بھی اسی قسم کے کیا خیالات پر اکسائے گا۔

1973 کے اوائل میں شاہ نے بار بار دہرایا وہ پاکستانی بلوچستان کو بھی ایران کے دفاعی حدود کے اندر ہی سمجھتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار سی ایل سلز برگ کو اپریل 1973 کی ایک ملاقات میں بتایا کہ اگر پاکستان ٹوٹتا ہے تو ویتنام کی سی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچانا ہے اس سے گھمبیر مسائل اور بڑے پیمانے پر بے چینی کی صورتحال پیدا ہوگی ۔

میں خود اس بارے میں سوچ کر بھی خوفزدہ ہو جاتا ہوں سلز برگ کے اس سوال پر کہ اگر ایسا نا گزیر ہو گیا اور پاکستان ٹوٹ جاتا ہے تو ؟ شاہ نے جواب دیا کہ اپنے مفادات کے لیے ہم کم از کم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رد عمل کے طور پر ہم بلوچستان میں حفاظتی اقدامات کریں ۔ سلز برگ نے اس جواب سے نتیجہ اخذ کیا کہ ایران اس پر کسی اور کے قابض ہونے سے قبل ہی قبضہ کرلے گا۔

بھٹو کے دورہ ایران کے دوران شاہ نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں ہونے والی تبدیلی ہمارے لیے نہایت اہم ہے اور اس کو درپیش کسی بھی ناگہانی مصیبت کو برداشت نہیں کیا جاسکتا، اس کی وجہ صرف مسلمان قومیت کے بنا پر برادرانہ محبت ہی نہیں بلکہ کہ ایرانی مفادات کی بنا پر ہم پاکستان میں مزید کسی تبدیلی یا مشکلات کو برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ ہم خدانخواستہ آپ کے ملک میں کسی بھی علیحدگی پسند تحریک پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے ۔” نومبر 1977 میں نیوز ویک کے ایک نامہ نگار سے اس نے سوال کیا کہ اگر باقی ماندہ پاکستان بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے تو تب کیا ہوگا۔؟ ” اگر اس علاقے کی حفاظت کی ذمہ داری ہم قبول نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔”

دوران اقتدار کے آخری عشرے میں شاہ مغربی تعلیمی یافتہ فن ماہرین کے زیر اثر تھا۔ جمشید آموزگار اسے قائل کر چکا تھا کہ بلوچ علاقے میں وسیع البنیاد مقاصد کے حصول کے لیے اسے بلوچوں کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں اقتصادی ترغیبات پر خصوصی زور تھا۔

1972 میں ایران سیستان بلوچستان کی ترقی پر صرف ساڑھے سات لاکھ ڈالر سالانہ خرچ کررہا تھا۔ اس کے باوجود یہ ایران کے صوبوں میں غریب ترین صوبہ تھا جس میں فی کس آمدنی صرف نو سو 75 ڈالر سالانہ تھی۔ جو کسی بھی دیسی علاقے 22 سو ڈالر سالانہ فی کس آمدنی کا نصف اور قومی اوسط فی کس سالانہ آمدنی کا پانچواں حصہ تھا۔

آموزگار نے ابتدا میں شاہ کے منصوبہ بندی کمیشن کا سربراہ کے طور پر کام کیا، اور بعد ازاں وزیراعظم مقرر ہوا اس نے حکومتی رستخیز پارٹی کے سربراہ کے طور پر صوبے کی ترقیاتی امداد میں مناسب اضافے کے لیے کامیاب دباؤ ڈالا۔

1973 میں شاہ نے بلوچستان ترقیاتی کارپوریشن قائم کی اور آنے والے پانچ سالوں کے دوران صوبے کی ترقی کے لئے سو ملین ڈالر خرچ کرنے کے ارادے کا اظہار کیا۔ آموزگار اہم سرکاری ملازمتوں اور سیستان اور بلوچستان میں رستخیز پارٹی کے کلیدی عہدے داروں کی حیثیت سے قابل اعتماد بلوچوں کی تعیناتی کا اختیار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ اپنے آزاد خیالی کے منصوبے کو اپنے بنا پر آگے بڑھانے میں کامیاب ہوا۔

1970 کے اوائل میں تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے باعث اقلیتی صوبوں جن کے بارے میں بے توجہی برتی جا رہی تھی ان کیلئے وافر رقوم مہیاء تھیں۔ درحقیقت شاہ کے لئے یہ نظریہ کشش رکھتا تھا کہ تیل سے حاصل ہونے والی بڑھتی ہوئی رقوم کے باعث بلوچوں کے لیے عظیم تر بلوچستان کے تجریدی یا اقتصادی طور پر غیر مستحکم پاکستان کے رہنے کی نسبت ایران سے منسلک رہنے کا خیال غالباً زیادہ دل آویز ہوگا۔ بلوچوں کو بہتر صورت اور خوشحالی کی فراہمی سے آموزگار کا مقصد نہ صرف ان کی ایران سے علیحدگی کو ختم کرنا تھا، بلکہ پاکستانی بلوچ علاقے میں عدم ترقی کی بناء پر تہران حامی جذبات ابھارنا بھی شامل تھا۔

بلوچستان میں رستخیز پارٹی کے سیکرٹری کے طور پر آموزگار کا پہلا انتخاب غلام رضا حسین بار تھا جو عہدے پر پہلا بلوچ تھا اور یہ شاہ کا قدیم ایرانی مملکت کے سرحدی علاقوں میں اقتصادی اور دفاعی حصار کے قیام کی طرف پہلا قدم تھا۔ حسین بار کے خیال میں ایران کا اپنے علاقوں کا دوبارہ حصول ناگزیر تھا، اور اس میں پاکستانی بلوچستان کو شامل کرنا نہایت اہم تھا، تاکہ پاکستانی اور ایرانی بلوچستان یکجا ہوکر توسیع شدہ ایران کا صوبہ بن سکیں۔

حسین بار نے 1978 میں زاہدان میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ ایران ماضی کے مقابلے میں اس وقت محدود ترین علاقے پر قائم ہے، یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ کبھی پورے افغانستان اور آدھے پاکستان پر محیط تھا، سندھ ہندوستان اور ایران کے درمیان قدرتی سرحد ہے ۔ بلوچوں کا یقیناً ایک جداگانہ تشخص ہے اور وہ دوسرے ایرانیوں کے ساتھ ساتھ باہمی وقار اور عزت کی بنیادوں پر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ بلوچوں میں علیحدہ قومیت کی سوچ پائی جاتی ہے غلط ہوگا۔ ایرانی ثقافت بلوچ لاشعور میں رس بس گئی ہے، اور اس سے فرار حاصل نہیں کرسکتے، وہ ایرانی شعرا کا مطالعہ کرتے رہے ہیں اور اظہار خیال میں درپیش مسائل یا اہم موضوع پر گفتگو کے دوران فارسی کا استعمال ان میں عام ہے، حسین بار نے کہا کہ اگرچہ آموزگار نے طاقت کی تقسیم پر توجہ نہیں دی ،لیکن منصوبے کی بنیادی اور نہایت اہم کڑی ترقیاتی پروگراموں میں انتظامیہ کی مرکزیت کو ختم کرنا اور تعلیم کی فراہمی تھی تاکہ بلوچوں کے لیے نئے مواقع پیدا ہو سکیں۔ حسین بار مصر تھا کہ اگر ایران میں بلوچوں کے غیر مطمئن ہونے کو تسلیم بھی کرلیا جائےتو اس کی وجہ ان کی قومیت نہیں بلکہ فقط یہ ہے کہ مرکز نے ان کی جانب بے توجہی برتی ہے۔ حکومت اس کوتاہی کو تسلیم کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آموزگار کی حکومت نے بلوچستان پر خصوصی توجہ دینے کی ضمانت دی ہے۔

ہوسکتا ہے کہ انہوں نے ماضی میں اس سلسلے میں مناسب اقدامات نہ کیے ہوں لیکن اب صورت حال بہتر ہو رہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ موجودہ حکومت ماضی کی تلافی پر کافی توجہ دے گی۔ آئندہ ایک دو عشروں میں یہاں اس قدر ترقی ہوچکی ہوگی کہ ایرانی کے لیے ایران کے علاؤہ کہیں اور رہنا آسان نہیں رہے گا۔ اور صرف پانچ سال بعد ہی بشرطیکہ مسٹر آ موزگار ملک پر حکومت کرتے رہیں، اور ان منصوبوں پر عمل ہوتا رہا تو ایران کے بلوچ ایران ہی میں رہنا پسند کریں گے۔

وہ ایران میں حاصل اقتصادی مراعات سے دست کش ہونا پسند نہیں کریں گے۔ اور ہم ابھی سے کئی پاکستانی بلوچوں کو ایران کی جانب پیش قدمی کی خواہش دیکھ رہے ہیں۔ لیکن آموزگار کا دور اقتدار صرف تین ماہ تھا، اور یہ حکومت بھی شاہ کے اقتدار کے ساتھ ہی ختم ہوگئی اور بلوچستان سے متعلق اس کے منصوبے کاغذی کارروائیوں سے آگے نہ بڑھ سکے تیل کی قیمتوں میں اضافے نے اقتصادی بہتری کے ساتھ ساتھ بلوچ سیاسی شعور بھی بیدار کیا جو قوم پرست جذبات ابھارنے کا باعث بنا اور جو شاہ کے اقتدار کے جانے کے بعد سامنے آئے آموزگار کی پیشنگوئی کے برعکس اقتصادی خوشحالی نے سیاسی بے چینی میں تخفیف کے بجائے مزید اضافہ کیا۔ اور بلوچوں کی ضروریات کے مطابق ترقی کے مطالبات کئے جانے لگے ، بلوچوں کی نظر میں شاہراہوں، اسپتالوں کی تعمیر کے لئے شاہ کا شکر گزار ہونے کی چنداں ضرورت نہ تھی کیونکہ یہ بلوچستان میں آبادکاروں یعنی فوجیوں کاروباریوں اور سرکاری ملازمین کی سہولت کے لیے بنائے گئے تھے، کئی نوجوان بلوچ جو خلیج کے ریاستوں میں ملازمت کر رہے تھے ستر کے عشرے میں پہلی مرتبہ بین الاقوامی سیاسی لہر کی زد میں آئے، انہوں نے وطن واپسی پر بلوچستان بلوچوں کے لیے نعرے سے منسوب کی گئی زیرزمین مطالعاتی قوم پرست گروہ تشکیل دیئے۔

‏Selig’s Harrison in Afghanistan shadow: Baloch nationalism and Soviet temptation,1980 Washington DC

مندرجہ بالا کتاب سے اقتسابات اس لئے نقل کئے کہ مغربی بلوچستان اور ایران میں آج جو کچھ بلوچ قوم کے ساتھ ہورہا ہے دراصل یہ ایک تاریخی تسلسل ہے ماضی قریب اور پھر خمینی دور میں بھی مغربی بلوچستان میں قومی تحریک جاری و ساری رہی ہے۔ شاہ کے بعد خمینی دور میں کچھ عرصے کے لیے بلوچوں ،کردوں اور خیز ستانی عربوں کو سیاسی آزادی فراہم کی گئی اور ان قوموں سے یہ بھی وعدہ کیا گیا کہ ان کی زبان اور ثقافت اور ان کے تمام حقوق بحال کردیے گئے ہیں۔ ماضی میں ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں اب ان کا ازالہ کرنے کا وقت آگیا ہے، مغربی بلوچستان میں خمینی دور میں بلوچوں کا ایک نمائندہ وفد 1979 میں ملازادہ کی قیادت میں تہران پہنچا اور اس وقت خمینی نے اس وفد کی بڑی عزت و تکریم کے ساتھ اس وفد کا نہ صرف استقبال کیا بلکہ مغربی بلوچستان کے تمام مسائل پر اس وفد کے ساتھ تین دن مسلسل اجلاس منعقد کیا۔ اور اس وقت کے تمام مطالبات منظور کئے ان مطالبات میں یہ بھی شامل تھا کہ مغربی بلوچستان میں بلوچی زبان کو سرکاری و قومی زبان کا درجہ دیا جائے گا۔ یہ وفد جب واپس زاہدان پہنچا تو اس کا بھرپور استقبال کیا گیا۔

ملازادہ نے واپس آ کر بلوچ قوم کو یہ خوش خبری سنائی کہ وہ ماضی کے سارے زخم آج سے بھر گئے ہیں اور بلوچوں کو فارس قوم کے برابر حقوق مل گئے ہیں۔ ہماری اسلامی حکومت ہمارے تمام تر مطالبات منظور کر چکی ہے اور ہم سب اسلامی بھائی چارے کو مزید آگے بڑھائیں گے۔

لیکن صرف ایک سال کے اندر بلوچوں کردوں اور عربوں کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے کیونکہ خمینی رجیم نے انقلاب کے بعد مستحکم ہوکر جو آئین تشکیل دیا اس میں فارسی زبان سارے ایران کا قومی اور سرکاری زبان قرار دیا، اور بلوچوں ، کردوں اور عربوں کو فارس قوم کا حصہ قرار دیا۔ ایسی شاندار دھوکہ بازی اور منافرت تھیوکریٹ ریاستوں کا حصہ ہوتا ہے۔ تھیوکریسی اور ملائیت ایسی دھوکہ بازیوں کو مذہب کا لبادہ پہناتا ہے۔

خمینی نے اپنی قوم فارس کو بھی دھوکا دیا جس نے دوران انقلاب شاہ کے خلاف جاں گسل جدوجہد کی جس کی وجہ سے انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ خمینی نے فارس قوم کے ترقی پسندوں کا بے رحمی سے صفایا کیا۔ بلوچ ،کردوں اور عربوں نے اس دھوکہ بازی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا بلوچ قوم میں پہلے سے موجود تنظیموں جیسا کہ بلوچ راجی زرمبش اور دوسرے تنظیم انتہائی برق رفتاری کے ساتھ منظم ہوئے اور خمینی رجیم کے خلاف جدوجہد تیز ہوئی ۔

دوسری جانب تودا پارٹی نے بھی مشترکہ جدوجہد کا چارٹر پیش کیا، مگر اب چونکہ خمینی رجیم مضبوط ہو چکا تھا اور رد انقلاب شروع ہوچکی تھی ۔ لہذا ایرانی فوج اور پاسداران نے نہایت بے دردی سے انقلابیوں کو کچلنا شروع کیا تودا پارٹی کے جنرل سکریٹری نورالدین کیا نوری وغیرہ کو لاپتہ کر کے قتل کر دیا۔ اور اس کے ساتھ بلوچ اور کردوں پر عرصہ حیات بھی تنگ ہو گیا۔ بلوچ اور کردوں کے سرگرم سیاسی کارکنوں نے تشدد سے بچنے اور سیاسی حوالے سے سرگرم ہونے کے لیے یورپ کینیڈا اور یو ایس اے میں جلاوطنی اختیار کیا۔ آج مغربی ممالک میں بلوچوں اور کردوں کی دوسری نسل بھی اس جدوجہد میں شامل ہو چکی ہے۔

ایران کی موجودہ صورت حال انتہائی حولناک ہو گئی ہے اس میں فارس قوم کے ساتھ مظلوم قوم بلوچ، کرد اور عرب بھی سراپا احتجاج ہیں۔ مغربی بلوچستان میں اب تک 100 سے زائد بلوچ شہید ہوچکے ہیں جس میں سولہ 16 معصوم بچے بھی شامل ہیں بلوچ قوم کی عظیم خواتین اس تحریک کا ہراول دستہ ہے، پوری قوم انتہائی بہادری کے ساتھ سینہ سپر ہوکر زبردست قوت سے لڑ رہی ہے یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ مغربی بلوچستان میں بلوچ قومی تحریک نے نئی انگڑائی لی ہے اور مکمل شعور و ادراک کے ساتھ قومی آزادی کی طرف گامزن ہے ۔ بلوچ خواتین مشرقی بلوچستان کے سر مچاروں اور آزادی پسند تنظیموں سے پرزور مطالبہ کر رہی ہیں کہ ہمارا بھرپور ساتھ دیں اور اپنے قومی فرائض کو نبھائیں اب یہ آزادی پسند تنظیموں کی قیادت اور کارکنان کا فرض ہے کہ وہ آگے آئیں اپنی حکمت عملیوں کو مربوط طریقے سے مغربی بلوچستان کی تحریک سے باہم جوڑ کر ایک وسیع پلیٹ فارم کے تحت ساری دنیا کے سامنے بلوچ تحریک کے مسائل کو اجاگر کریں۔

بیرون ملک مقیم قیادت اور کارکنان خاص کر بی این ایم کے رہنماؤں اور کارکنوں کو بنا کسی چوں چراں اور بغیر کسی تمہید کے بہترین طریقے سے یک آواز ہوکر آگے بڑھیں۔ مشاہدے میں آرہا ہے کہ کچھ نا عاقبت اندیش ساتھی خوامخواہ اوٹ پٹانک مشگافیاں پیش کر کے اپنی کم علمی کا واضح ثبوت دے رہے ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ آزاد خیالی اور خودستائی تحریک کیلئے تباہ کن ہوتے ہیں۔ ان بقراطیوں کو معلوم کچھ بھی نہیں اور صرف اپنی کھو پڑی کے زور پر فلاسفر بننے کی کوشش کرتے ہیں ، بلوچ قومی قیادت کو چاہیے کہ ان خود ساختہ دانشوروں پر کڑی نظر رکھیں اور انہیں پابند کریں کیونکہ یہ بے شعور لوگ ہمارے عظیم سرمچاروں اور بلوچ قوم کی عظیم قربانیوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یورپ کے مختلف شہروں میں مغربی بلوچستان کے بلوچوں اور مظلوم کردوں نے شاندار اور بھرپور مظاہرے کیے اور ساری دنیا نے اس کی پزیرائی کی لیکن جلاوطن آزادی پسند پارٹیوں اور جلا وطن کارکنوں نے ان مظاہروں میں شرکت نہ کر کے اپنے قومی فرض سے لاتعلقی برتی یہ یاد رہے کہ ہمارے عظیم سرمچاروں کی جدوجہد اور بلوچ قوم کی قربانیاں کسی مخصوص ریاست کی پروکسی نہیں ہے بلکہ تاریخی جدوجہد ہے۔

اپنی قوم اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے ایران میں جاری بلوچ قومی جنگ با وقار انداز سے جاری ہے اور یہ بات بھی یاد رہے کہ ایران میں بلوچ قومی آزادی کی جنگ جدید بنیادوں پر ہے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مغربی بلوچستان کے بلوچ بہت پیچھے ہیں اور ان کو مزید سیکھناہے۔ تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ مغربی بلوچستان کے بلوچ بہت ہی جدید ہیں اور ان کی تحریک بھی جدید ہے کیونکہ مغربی بلوچستان کے بلوچ فارس قوم کے ساتھ معاشرتی زندگی گزار رہیں ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ فارس قوم بے پناہ جدید قوم ہے اس قوم نے ایک جابر وظالم شہنشاہ کو بھی ماضی قریب میں رسوا کر کے ایران سے نکال دیا اور اس شہنشاہ کو کہیں پناہ نہیں ملی، فارس قوم کی تودہ پارٹی دنیا کی تسلیم شدہ جدید کمیونسٹ پارٹی تھی، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی طرح پسماندہ پارٹی نہیں تھی، فارس قوم کی مجاہدین خلق و فدائین خلق اعلی ترین گوریلا آرگنائزیشن تھے۔ ان پارٹیوں میں نوجوان خواتین کی بھرپور شمولیت تھی ،ایران کے بلوچ گوریلا تنظیموں نے 1970 کی دہائی میں ان کے ساتھ مل کر کام کیا مغربی بلوچستان کے بلوچ کسی سردار کے تابع نہیں بلکہ نہایت شاندار انداز میں شاندار جدوجہد کرنے کے قائل ہیں۔

اب آئیے ذرا مشرقی بلوچستان کی جانب گو کہ اس وقت بلوچ قومی آزادی کی تحریک گزشتہ 21 اکیس سالوں سے جاری ہے، شہدا نے اپنے لہو سے اس کی آبیاری کی ہے بلوچ قوم کے ہزاروں فرزند اغواء کرکے لاپتہ کردئیے گئے ،عظیم سرمچار مخلصانہ جدوجہد میں شب و روز مصروف عمل ہیں آزادی پسند پارٹیوں کے قائدین و کارکنان وطن سے دور جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور سرگرم عمل ہیں، لیکن ان سب باتوں کے باوجود مشرقی بلوچستان کے بلوچ جدید نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک پسماندہ رجعتی اور انتہائی جاہل قوم پنجابی کے قبضے میں ہیں پاکستانی معاشرہ انتہائی رجعتی معاشرہ ہے پنجابیوں نے آج تک اپنے حکمرانوں کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی ہے پاکستانی معاشرے میں نمود و نمائش ،خودنمائی و خودستائی، بغض و حسد ، کینہ و بزدلی، لالچ و چاپلوسی، انفرادیت پسندی وغیرہ نمایاں پہلو ہیں ۔ اب چونکہ بدقسمتی سے بلوچ بھی اسی پاکستانی معاشرے میں زیر قبضہ ہیں اور انہی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں لہٰذا بلوچ بھی ان ہی پاکستانی معاشرتی برائیوں کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ اتنی قربانیوں اور اتنی عظیم تحریک کے باوجود ہم اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکے ہیں، پہلے عرض کر چکا ہوں کہ مغربی بلوچستان کے بلوچ ایک جدید قوم فارس قوم کے ساتھ معاشرتی زندگی گزار رہے ہیں لہٰذہ وہ جدید ہیں اور یہ بھی یقینی ہے کہ مغربی بلوچستان کے بلوچ کامیابی سے ہمکنار ضرور ہوں گے۔ کیونکہ ایرانی ملاؤں کی حکومت نے ایران کو بے پناہ تباہ کر دیا ہے اور ساری دنیا ان ایرانی ملاؤں کو نہیں مانتی اس لیے وہاں موجودہ ابھار آگے بڑھی۔ اور وہاں کے بلوچوں کو عالمی طاقتیں نظر انداز نہیں کر سکتے اسی لیے مغربی بلوچستان کے بلوچ خوش قسمت ثابت ہوں گے یہ امکانات پیدا ہوگئے ہیں وہاں بلوچوں کو ایک آزاد بلوچستان ہم سے پہلے مل جائے گی، اگر یقین نہیں آتا تو دنیا اور اس خطے کے حالات پر ذرا غور کریں۔

لہذا یہ بات اب واضح ہے کہ 21 اکیس سالوں سے جاری بلوچ قومی آزادی کی عظیم تحریک کے رہنما و پارٹیاں ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے بلوچوں کے ساتھ مربوط ہوکر تحریک کو آگے بڑھائیں اور دونوں اکٹھے اپنے قومی مقاصد حاصل کریں اور بلوچ قوم آزادی سے لطف اندوز ہوسکے، کیونکہ لمحات بہت اہم ہوتے ہیں بلوچ قوم کے لئے خطے اور عالمی حالات سازگار ہو گئے ہیں اب لمحہ بھی دور نہیں ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں