الجزائر کی آزادی میں فٹ بال کا کردار
تحریر: حاجی حیدر
دی بلوچستان پوسٹ
اکثر و بیشتر لوگوں کا ماننا ہیکہ فٹبال محض ایک کھیل ہے، اور کچھ نہیں، لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ صرف ایک کھیل نہیں بلکہ ایک جدوجہد ہے، قوم کی جدوجہد، آزادی کی جدوجہد ہے۔
الجزائر کے ریوولیوشنری جنگ کے بارے میں سب کو پتہ ہے فرانز فینن اور نیگوگی کی تصانیف بھلا کس مظلوم اسٹوڈنٹس کو یاد نہیں، انکے کارناموں کے بارے میں کون نہیں جانتا، انکی کتابیں بک شاپس میں آسانی سے نہ ملیں لیکن ایک عام بلوچ طالب علم کے پاس انکی تصانیف آسانی سے مل جائیں گی۔
یہ وہ کتابیں ہیں جنہیں پڑھ کر ہم جانتے ہیں کہ الجیریا نے فرانس کی کالونی سے لیکر آزادی کا سفر کیسے طے کیا۔
یہ کہانی بھی الجزائر کی اس مظلوم قوم کی کہانی ہے۔ یہ کہانی نیشنل لبریشن فرنٹ کے رہنما آحمد بن بیلہ اور محمد بمزراگ کی کہانی ہے جو خود فرانسیسی فٹبال ٹیم کے سابق کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ نیشنل لبریشن فرنٹ کے رہنما آحمد بن بیلہ کا خیال تھا کہ نہ صرف گوریلا حکمت عملی سے ہم الجیریا کی آزادی کیلئے لڑیں گے بلکہ ہم فٹبال کھیل کو بھی فرانسیسی کالونی سے نجات دلانے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ نیشنل لبریشن فرنٹ کے رہنما احمد بن بیلہ نے چار بڑے فرانس کے فٹبال کھلاڑی کرمالی، راشد مخلوفی، عبدالحمید بوچوک اور مختار ( جو کہ الجزائر کے باشندے تھے ) کو فرانس کی ٹیم چھوڑنے کا پیغام بھیجا اور انہیں کہا گیا کہ وہ اپنی قومی ٹیم الجزائر کیلئے کھیلیں۔
یہ ان کھلاڑیوں کیلئے انتہائی کھٹن فیصلہ تھا، ایسا فیصلہ جس سے انکے کیریئر کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی بھی ختم ہوسکتی تھی۔ بالآخر ان چاروں کھلاڑیوں نے فرانس کی غلامی قبول کرنے سے انکار کردیا اور ایک ایسے سفر پر نکل پڑے جس کے راستے بہت دشوار گزار تھے۔
انہوں نے اپنے اس کھٹن اور قوم دوستی کا سفر پیر، 14 اپریل 1954 کو کیا تھا اور جہاں انہیں غیر قانونی طریقے سے سوئس فرانس سرحد عبور کرکے الجیریا جانا پڑا، مشکل اور کھٹن سخت حالت کے بعد یہ چاروں کھلاڑی آخر کار اپنے آبائی وطن الجیریا پہنچ گئے اور وہیں انہوں نے فٹبال کھیلنا شروع کیا اور دنیائے فٹبال کے سامنے اپنے قوم کی نمائندگی کی۔
یاد رہے! یہ چاروں کھلاڑی اس وقت اعلی سطح کے فرانسیسی فٹبال کلبوں میں کھیل رہے تھے انکے پاس ہر طرح کے آسائشیں تھیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے فرانس کی غلامی قبول نہیں کی اور ایک ایسے ملک کے لیے کھیلنے کو ترجیح دی جو ابھی تک آزاد نہیں ہوا تھا۔ یہ وہ کھلاڑی تھے جنہیں فرانس نے ملک دشمن اور غدار ہونے کیوجہ سے موت کی سزا سنائی تھی اور فیفا سے مسلسل احتجاج کے باوجود الجزائر کی فٹبال ٹیم مختلف قومی ٹیموں کیخلاف میچ جیتنے میں کامیاب ہوئی ،اس وقت ہنگری کیخلاف 6-2 اور USSR کیخلاف 6-0 گول سے کامیابی حاصل کی یہ عالمی فٹبال شائقین کیلئے حیران کن منظر تھا یعنی ایک اسپورٹس اسٹار سے سیاسی فوجی کی طرف متوجہ پانا یہ آنکھ کھولنے والا نظارہ تھا۔
مخیلوفی نے کہا تھا کہ مجھے یہ ٹیم دینے کیلئے میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں،کیونکہ اس ٹیم کی بدولت میں دنیا کے سامنے ابھی اپنے آپکو الجزائری کہلوانے پر فخر محسوس کروں گا۔
جب 19 مارچ 1962 کو یو این معاہدے پر دستخط کیے گئے جنگ کا خاتمہ ہوا اور الجزائر کو اس کے ایک سو تیس سال سے زائد عرصے کے نوآبادیاتی آقا سے آزادی دلائی گئی اور الجزائر کے آزادی کے بعد مختلف کھلاڑی فر انس میں فٹبال کھیلنے آئے اور بہت سے اپنے پچھلے کلبوں میں واپس چلے گئے۔
نصف صدی کے گزرنے کے بعد بھی فٹبال ابھی بھی فرانس اور اسکے کالونی الجزائر سے جڑا ہے۔ فرانس نے پہلی بار ورلڈکپ ایک الجزائر کھلاڑی کی بدولت جیتا 1998 کا ورلڈکپ ذیڈان کی دلیرانہ کارکردگی سے جیتا تھا۔ اور قطر ورلڈکپ میں بھی فرانس ٹیم کا فخر ایک الجیرین کھلاڑی ہیں اور دنیا اسے کریم بینزیما کے نام سے جانتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں