ہاں میں بلوچستان پیکچ کا پیداوار ہوں
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
چند دن پہلے بی ایس او کے کچھ دوست سیاسی دورے پر تربت یونیورسٹی گئے ہوئے تھے تو انھیں سیکیورٹی کے نام پر گھنٹوں روکا گیا ڈرایا دھمکایا گیا، اس سال کے شروع میں بھی بی ایس او کے اسی دھڑے سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے ساتھ اسی یونیورسٹی کے انتظامیہ نے یہی رویہ روا رکھا تھا۔ غالباً دو سے تین ہفتے پہلے عامر نامی ایک بلوچ ٹرانس جینڈر شخص نے ایک نجی پروگرام میں ڈانس کرتے ہوئے اپنی خداداد صلاحیتوں کا اظہار کیا تھا۔ اول تو بغیر اجازت عامر بلوچ کے ذاتی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئیں جو سراسر غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے پر ویڈیو دیکھ کر مولاجٹ ٹائپ کے یونیورسٹی انتظامیہ کی عزت، غیرت ننگ ناموس سب جاگ اٹھے لہٰذا اس مدرسہ ٹائپ یونیورسٹی اور اس کی تبلیغی ٹائپ بنیاد پرست نام و نہاد برطانیہ، کینیڈا، امریکہ اور چائنا سے پی ایچ ڈی کرنے والے ان کے اساتذہ نے غیرت کے نام پر عامر کے خلاف سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
اب پچھلے چند روز سے لسبیلہ یونیورسٹی کے طلبہ جو اپنے بنیادی تعلیمی حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے تھے جو کہ ان کا آئینی اور قانونی حق ہے مگر اس سب کے برعکس ان پر لاٹھی چارج کروائی گئی اور اب ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروا کر انھیں ریسٹیکیٹ کرنے کے راستے ہموار کئے گئے ہیں۔
طلبہ غلط ہیں یا انتظامیہ یہ تو ایک الگ بحث اور بعد کی بات ہے سوال یہ کہ سزا کے طور پر ہمیشہ ہمیشہ کےلئے نوجوانوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنا یہ کس عقلمند انسان کا فیصلہ ہے اور یہ کونسی سزا ہے کہ عامر ہو یا کوئی بھی طالبعلم، سزا کے طور پر اس کے لئے تعلیم کے دروازے بند کئے جائیں؟ غالباً یہ سزا ہمارے باہر سے پڑھے عالم فاضل پی ایچ ڈیز کی ایجاد ہے۔ انھوں نے جہاں سے بھی پی ایچ ڈی کی ہو پر ان کی پی ایچ ڈی اور مارکیٹ میں ملے چین کے سامان میں کوئی فرق نہیں ہے۔
ستر میں جب بلوچستان میں شورش اپنے عروج پر تھا تو بھٹو سرکار نے ( لیڈ ء لڈو) دینے کے لیے بلوچستان پیکج دینے کا علان کیا جس سے بہت سے بے روزگار سر پھرے بی ایس او اور ورنا وانندہ گل کے بے روزگار نشے کی حالت میں دھت فٹ پاتوں اور چینکی ہوٹلوں کے بادشاہ راتوں کو بلوچستان کو آزاد کرنے والے بے عمل لوگ ایک ایک ایک کرکے اس خیراتی پیکج سے مستفید ہوئے اور یوں کوئی ڈرائنگ ٹیچر لگا تو کوئی سیکٹریٹ کا بابو، فرق صرف اتنا آیا کہ ان کی شراب اور سگریٹ کا برانڈ بدلا پھر یہ بیوروکریٹ بابو خیراتی پیکج لینے کے بعد ہر جگہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہم اپنی قابلیت کے بل بوتے پر لگے ہیں۔
ان میں سے کچھ بھٹو کے بیڈ روم تک پہنچنے میں بھی کامیاب ہوئے ظاہر ہے چالاک اور چرب زبان تھے ایک آدھا آرٹیکل ایک آدھا میگزین ایک آدھا شعر لکھ کر ماہر ء بلوچ کہلائے اور اس طرح مخبروں کا ایک مقامی کھیپ تیار ہوا جو اسٹاف کالج میں بلوچ تحریک کے خلاف لیکچر کے نام پر مخبری کرتے اور خود اپنی قابلیت کے گن گاتے۔
ویسے ضمیر فروشی اور وطن فروشی کی حد ہے ان میں سے چند ایک کی اولادیں اپنے بزرگوں سے ایک آدھا ہاتھ آگے نکل چکے ہیں۔ اسی طرح جب دو ہزار میں موجودہ بلوچ تحریک شروع ہوا تو بھٹو کے بقایا جات نے ایک اور پیکج کے نام پر بلوچ تحریک کا سودا لگانے کی ناکام کوشش کی تو بالکل ستر کی طرح بی ایس او کے بہت سے بقایا جات ایس ایس ٹی اور جے وی لگے کچھ این اجی اوز کی نظر ہوئے تو کچھ سول سیکٹریٹ کو قربان ہوئے اور بہت سے یونیورسٹیز کے منظور نظر بنے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی نئی یونیورسٹیز اور کیمپسیز بنے جس میں لگنے والے ملازمین کی اکثریت بلوچوں کی تھی، اور ہے، اور ان میں زیادہ تعداد بی ایس او کے کیڈرز کی ہے یا ان لوگوں کی جو بی ایس او نے سفارش کرکے لگوائے پھر سلسلہ یہاں نہیں رکتا بلکہ ایم فل پی ایچ ڈی کے نام پر انھیں لندن امریکہ، کینیڈا اور چائنا بھیجا گیا۔ یہ سب موجودہ بلوچ تحریک اور بی ایس او کے جدوجہد کی مرہون منت ہے مگر جیسے ہی یہ لوگ نوکریوں پر مستقل ہوتے ہیں پھر خود ہی اپنے قابلیت کے گن گاتے نہیں تھکتے بلکہ دوران نوکری ترقی سے لیکر روم ألاٹمنٹ و کوارٹر الاٹمنٹ تک معصوم طلبہ کو استعمال کرتے ہیں مگر جیسے ہی ان کے تمام لالچی عزائم پورے ہوں تو پھر طوطے کے طرح میرٹ کی رٹ لگاتے نہیں تھکتے۔
آج چوکیدار سے لیکر کسی بھی بڑے پوسٹ پر لگنے والا آدمی بلکہ سیاسی عہدے لینے والا بلوچ تحریک کی مرہون منت ہے بلکہ پشتون بھی اس سے مستفید ہورہا ہے ورنہ قابض کسی کو بھنگی بھی نہ لگائے ان کے اپنے تھیسیز خراب ہوں پراجیکٹ ناکام ہوں، ٹیسٹ فیل کریں پراجیکٹ لینا ہو، این او سی لینا ہو بلوحستان کے حالات کا بہانا کرکے تمام رعایت و مراعات لیتے ہیں اور بعد میں میرٹ کی بات کرتے ہیں کرپٹ اتنے کہ اکیڈمیا کو چھوڑ کر ایڈمنسٹریشن کی چاہت رکھتے ہیں ان میں سے اکثر محسن کش سر زمین کے دغاباز بن کر طلبہ کی اپنی بھائیوں کی مخبری نشاندہی کرتے اور پالیسی بنانے میں شریک جرم ہوتے ہیں۔
ابھی چند دن پہلے تربت یونیورسٹی کے لئے لیکچرارکے لئے ٹیسٹ و انٹرویوز تھے چار لوکل بلوچوں نے ٹیسٹ پاس کیا تھا جس میں ہائی کورٹ کے ایک جسٹس صاحب بھی شامل تھے بقول ان کے چاروں لائق تھے مگر ٹاپر انٹرویو میں فیل ہوا اس نے احتجاج بھی کیا ہوگا مگر وجہ یہ تھی کہ پہلے اس سے بلوچستان کے حالات کا پوچھا گیا تو اس نے کہا یہاں کوئی تحریک نہیں سارے عالمی ایجنٹ اور کرائے کے لوگ ہیں پر جب اسے کہا گیا کہ پھر لوگ مسنگ کیوں ہو رہے ہیں اجتماعی قبریں اور مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں تو ایسے چونکہ ہر حال میں نوکری لینا تھا اسی لئے ماحول کو دیکھ کر اس نے فوراً یوٹرن لینا چاہا مگر جسٹس صاحب نے یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی کہ یہ آدمی استاد بننے کے قابل نہیں ہےکیوں کہ یہ خود منافق ہے اس لئے ہمارے بچوں کو بھی منافقت سکھائے گا۔ بس اسی طرح بلوحستان بہت سے منافقوں کے لئے کمائی کا ذریعہ ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں