گوانتاناموبے میں طویل عرصے تک قید رہنے والا پاکستانی رہا

300

طویل عرصے تک امریکہ کی گوانتاناموبے جیل میں قید رہنے والے پاکستانی شہری سیف اللہ پراچہ رہائی کے بعد پاکستان پہنچ گئے ہیں۔

سنیچر کو پاکستان کے وزارت خارجہ کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ سیف اللہ پراچہ کی وطن واپسی کے لیے دونوں ملکوں کی ایجنسیوں کے درمیان طویل طریقہ کار کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے مکمل کیا۔

’ہمیں خوشی ہے بیرون ملک قید پاکستانی شہری بالآخر اپنے خاندان سے مل گئے ہیں۔‘

 ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ریکارڈ کے مطابق سیف اللہ پراچہ 26 سال کی عمر میں تعلیم کی غرض سے امریکہ گئے تھے اور کاروبار شروع کرنے کے لیے پاکستان واپسی سے قبل تقریباً 10 سال تک اپنے رشتہ داروں کے پاس مقیم رہے۔

انہوں نے پانچ جولائی 2003 کو ایک کاروباری میٹنگ کے لیے تھائی لینڈ جانا تھا۔ انہوں نے روانگی سے قبل اپنی بیٹی کو کال کر کے کہا تھا کہ وہ تھوڑی دیر بعد تھائی لینڈ کے لیے روانہ ہوں گے تاہم وہ اپنی میٹنگ میں نہیں پہنچ سکے۔

بعد ازاں انہوں نے جنگجویانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کی تحقیقات کرنے والے ٹربیونل کو گوانتاناموبے میں بتایا تھا کہ جب وہ چھ جولائی کو بنکاک پہنچے وہاں پر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

اس کے بعد امریکی حکام نے انہیں افغانستان کے بگرام ایئربیس منتقل کیا جہاں وہ تقریباً ایک سال تک رہے اور ستمبر 2004 میں انہیں گوانتاناموبے منتقل کر دیا گیا۔

ایک ماہ بعد نیوز رپورٹس سے ان کے خاندان والوں کو پتہ چلا کہ انہیں امریکی حکام نے حراست میں لیا ہے اس کے چند روز بعد انہیں انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی آف ریڈ کراس کی وساطت سے خط موصول ہوا جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کو بگرام میں رکھا گیا ہے۔

سیف اللہ پر دہشتگردوں کو معاونت فراہم کرنے کے الزامات کیوں لگے؟

گرفتاری سے قبل سیف اللہ پراچہ کا شمار کراچی کے کامیاب بزنس مین میں ہوتا تھا۔ وہ 1970 میں نیویارک انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کرنے امریکہ گئے۔ وہ اپنی ڈگری تو مکمل نہ کر سکے لیکن 1974 میں انھوں نے اپنے بھائی کی مدد سے ’گلوبل ٹریول سروسز‘ کے نام سے ٹریول ایجنسی کھولی اور 13 سال امریکہ میں ہی گزارے۔

امریکہ میں ہی ان کی ملاقات اپنی اہلیہ فرحت سے ہوئی اور 1979 میں ان کی شادی ہوئی جن سے ان کے چار بچے ہیں۔

سیف اللہ پراچہ نماز کے پابند تھے اور صاحب حیثیت ہونے کی وجہ سے خیراتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ انھوں نے اپنے بچوں کو کراچی کے بہترین سکولوں سے تعلیم دلوائی۔

سنہ 2009 میں بی بی سی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں سیف اللہ کی اہلیہ نے بتایا تھا کہ سیف اللہ پراچہ نائن الیون سے پہلے دو مرتبہ افعانستان بھی گئے جہاں ان کی مبینہ طور پر اسامہ بن لادن سے ملاقات ہوئی تھی۔

فرحت پراچہ کے مطابق ان کے شوہر صنعتکاروں کا وفد لے کر افغانستان گئے تھے تاکہ مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے اس تباہ حال ملک میں پلاسٹک اور بائی سائیکل کی فیکٹریاں لگائی جا سکیں۔

اطلاعات کے مطابق سیف اللہ پراچہ نے اسامہ بن لادن سے کہا تھا کہ ’تم جو یہاں کر رہے ہو اس سے امریکہ تمہارے خلاف ہو گیا ہے۔ تم اپنا مؤقف بتاؤ اور ہمیں ایک انٹرویو دو۔‘

اس مقصد کے لیے وہ اپنا وزیٹنگ کارڈ بھی اسامہ کے پاس چھوڑ آئے تھے۔

امریکی حکومت کے مطابق افغانستان میں القاعدہ کے کمپاؤنڈ پر چھاپے کے دوران سیف اللہ کا وزیٹنگ کارڈ برآمد ہوا تھا جس کے بعد ان پر الزام عائد کیا گیا انھوں نے اسامہ کو پاکستان میں اپنے نشریاتی بزنس پر القاعدہ کے پراپیگنڈہ کرنے کی پیشکش کی۔

گوانتاناموبے ٹریبونل کے سامنے دیے گئے اپنے بیان میں پراچہ نے اعتراف کیا کہ وہ دسمبر سنہ 1999 اور جنوری سنہ دو ہزار میں افغانستان میں اسامہ بن لادن سے مل چکے ہیں۔ سیف اللہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے اسامہ بن لادن کو انٹرویو کی پیشکش صرف اس لیے کے کیونکہ وہ چاہتے تھے اسلام اور دیگر مذاہب میں اختلافات کو کم کیا جا سکے۔

سیف اللہ نے بتایا کہ 2001 میں ‘میر’ نامی ایک شخص کراچی میں ان کے دفتر ان سے ملاقات کے لیے آیا اور وہ ان کے اسامہ بن لادن کے انٹرویو سے متعلق مزید جاننا چاہتا تھا۔

سیف اللہ کے بیان کے مطابق میر نامی شخص نے ہی انھیں اپنے ساتھی مصطفیٰ اور ماجد خان سے ملوایا اور جب ماجد خان کو معلوم ہوا کہ سیف اللہ کا بیٹا عزیر بزنس کے سلسلے میں امریکہ جا رہا ہے تو انھوں نے اس سے مدد کی درخواست کی۔

یکم مارچ 2003 کو جب سی آئی اے اور پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے خالد شیخ محمد کو راولپنڈی سے گرفتار کیا اور اس کی خبر ٹی وی پر چلی تو سیف اللہ پراچہ کو احساس ہوا کہ وہ جس شخص کو میر سمجھ کر ملتے رہے وہ دراصل القاعدہ کے سرکردہ رہنما خالد شیخ محمد ہیں اور ان کے ساتھی مصطفیٰ دراصل عمار ال بلوچی ہیں۔

سیف اللہ کے بیان کے مطابق وہ ‘میر’ اور ‘مصطفی’ نامی شخص سے صرف اس لیے رابطے میں رہے کیونکہ انھیں لگا کہ یہ دونوں ان کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

سیف اللہ پراچہ پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ خالد شیخ محمد نے انھیں پانچ سے چھ لاکھ ڈالر کی رقم امانت کے طور پر دی تھی اور سیف اللہ پراچہ نے خالد شیخ محمد کو بین الاقوامی جہاز رانی کے ذریعے ہونے والی تجارت میں اپنے طویل تجربہ کی بنیاد پر عورتوں اور بچوں کے کپڑوں میں چھپا کر دھماکہ خیز مواد امریکہ سمگل کرنے میں اپنی خدمات کی پیش کش کی تھی۔ تاہم سیف اللہ نے ان الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔

سیف اللہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ امریکی سینٹ کی رپورٹ کے مطابق خالد شیخ محمد نے یہ بیانات تفتیشی افسران کی جانب سے ان پر اذیت ناک تشدد کیے جانے کے بعد دیے۔ اس کے علاوہ بعد میں جب خالد شیخ محمد کو سیف اللہ پراچہ کی تصویر دکھائی گئی تو انھوں نے انھیں پہچاننے سے انکار کر دیا۔

اس کے علاوہ عمار ال بلوچی نے بھی دوران تفتیش اعتراف کیا کہ سیف اللہ ان کے القاعدہ سے تعلقات سے آگاہ نہیں تھے اور انھیں سیف اللہ سے میڈیا میں استعمال ہونے والے سامان اور اس کی ترسیل سے متلعق معلومات حاصل کیں تھی۔

مارچ 2003 میں خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے چند دن بعد ہی ماجد خان کو پاکستانی اہلکاروں کی جانب سے گرفتار کر لیا جاتا ہے جس نے دوران تفتیش سیف اللہ پراچہ اور عزیر پراچہ کے نام لیے۔ اس کے بعد نیویارک میں عزیر کو گرفتار کیا گیا اور اپریل 2003 ہی میں عمار ال بلوچی کو کراچی ائیرپورٹ سے اغوا کر کے امریکی حراست میں دے دیا گیا۔

یہ وہی وقت تھا جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کراچی سے لاپتہ ہوئیں۔ اس کے بعد جولائی 2003 میں سیف اللہ کو بینکاک سے گرفتار کیا گیا۔

سیف اللہ کی اہلیہ فرحت سیف اللہ نے 2006 میں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ سیف اللہ کی گرفتاری کے بعد ان کے اہلِخانہ سے ان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے کنارہ کشی کر لی۔

’ہم جس سے بھی بات کرنے کی کوشش کرتے تھے وہ ہم سے دور بھاگتا تھا۔ میں ایک ہاتھ پر بھی اپنے دوستوں کو نہیں گن سکتی یہاں تک کہ بہت سے قریبی رشتہ داروں نے بھی ہم سے رابطہ ختم کر دیا تھا۔‘

سیف اللہ پراچہ کے اہل خانہ نے صدر مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز کے علاوہ امریکی سفیروں کو بھی خطوط لکھے ہیں مگر ان میں سے کسی نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا۔ سنہ 2009 میں جب انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس کی جانب سے گوانتانامو کے قیدیوں کی ان کے گھروالوں سے ویڈیو کانفرنس کروانے کے پروگرام کا آغاز کیا گیا تو سیف اللہ پراچہ نے اپنے خاندان کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کی جس میں انھوں نے اپنی خراب صحت سے متعلق آگاہ کیا۔ جس کے بعد سے ان کے اہل خانہ اور وکیل ان کے بہتر علاج اور رہائی کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔

امریکی صدر براک اوبامہ نے جب اپنی ذمہ داریاں سنبھالی تو انھوں نے گوانتانامو بے کو بند کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا جس نے گوانتانامو بے میں قید سیف اللہ جیسے متعدد قیدیوں کو رہائی کی امید دلائی تاہم اپنے آٹھ سالہ دور صدارت کے دوران اوبامہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے اور ان کے بعد آنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گوانتانامو بے کو بند کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس کو مزید ’برے افراد‘ سے بھرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔

بہت سے مبصرین نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ صدر جو بائیڈن گوانتاناموبے میں قید بقیہ 40 قیدیوں کی رہائی کے لیے اقدامات کریں گے اور سابق صدر براک ابامہ کا وعدہ پورا کریں گے۔