افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند کے ضلع گرمیسر کے علاقے سفار میں پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے فائرنگ کرکے تحریک طالبان پاکستان کے ممبر کو زخمی کردیا جبکہ حملہ آوروں میں سے ایک کو افغان حکومت کے اہلکاروں نے گرفتار کرلیا۔
ٹی بی پی ذرائع کے مطابق بلوچستان کے علاقے مستونگ کانک کے رہائشی محمد صادق مینگل پہ پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے فائرنگ کرکے زخمی کردیا۔حملہ آوروں میں سے ایک کو افغان پولیس نے گرفتار کرکے خفیہ ادارے جی ڈی اے کے حوالے کردیا۔
افغانستان میں اس سے قبل بھی تحریک طالبان پاکستان کے ارکان حملے ہوتے رہے ہیں جن میں انہیں جانی نقصانات کا اٹھانا پڑا ہے۔
رواں سال اگست میں ٹی ٹی پی کے اہم رہنماء ملا عمر خالد خراسانی، حافظ دولت خان، ملا حسن، ملا امیر اور مولانا عقابی دو مختلف حملوں مارے گئے تھے۔ مذکورہ حملے افغانستان کے علاقوں کنڑ اور لوغر کیے گیے۔
اسی سال مارچ میں کندھار میں مسلح افراد کی فائرنگ سے عبدالوہاب لاڑک عرف حکیم سندھی مارا گیا تھا۔ حکیم سندھی کا تعلق سندھ کے علاقے شکار پور سے تھا۔
علاوہ ازیں افغانستان میں بلوچ مہاجرین پر بھی متعدد حملے ہوئے ہیں جن میں انہیں جانی نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔
رواں سال جولائی میں بلوچ اکثریتی صوبے نیمروز میں مسلح افراد نے بلوچ مہاجرین پہ حملہ کیا جس کے نتیجے ایک نوجوان جلمب مری ولد ملک مری مارا گیا۔
جملب مری کا خاندان گذشتہ 10 سالوں سے افغانستان میں پناہ گزین کی زندگی گزار رہے ہیں۔
افغان حکومت کے اہلکاروں نے جملب مری پر حملے کے بعد 3 افراد کو گرفتار کیا جن پہ قتل اور منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
بلوچ مہاجرین پر حملوں میں پاکستانی خفیہ اداروں کو ملوث قرار دیا جاتا ہے جبکہ ان پر حملوں میں ملوث افراد کی جانب سے بھی اسکی تصدیق کی گئی ہے۔
گذشتہ مہینے صوبہ کندھار سے طالبان حکومت کے اہلکاروں نے 2 مشکوک افراد کو گرفتار کیا جو کہ بلوچ مہاجرین کے گھروں میں جاکر خود کو طالبان ظاہر کررہے تھے۔
ایک حکومتی اہلکار نے دو افراد کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان نے دوران تفتیش اقرار کیا کہ انہیں پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے بھاری رقوم دے کر بلوچ مہاجرین کو نشانہ بنانے کا ٹاسک دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ملزمان نے کندھار میں واقعہ پاکستانی قونصل خانے کے اہلکار کی بھی نشاندہی کی جس نے بلوچ مہاجرین کے گھروں کے پتے دیئے تھے ۔