سندھو کنارے کا مکیں،جمنا جیسا
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
سندھ کے کنارے تو اب آب سے ڈھکے ہیں،پر اس کی آنکھوں کے چھپر تو زمانہ ہوئے آنسوؤں سے ڈکھے ہوئے تھے۔دھرتی تو اب آب آب ہوئی ہے۔پر جب دھرتی خشک تر تھی جب بھی اس کی آنکھیں گیلی تھیں۔وہ گیلی آنکھیں کس نے دیکھیں؟عرفانہ ملاح نے؟امر سندھو نے؟سندھی ادیبوں نے؟بکواس شاعروں نے،SLFکے نام نہاد بانی نے؟ایاز ملیو کی ناری نے؟سرکاری غیر سرکاری سندھی ادیبوں نے؟اخباری دانشوروں نے؟سستے میگزینوں کے جاہل اڈیڈٹروں نے؟پلیجو کی نقل کرتے سندھی دانشوروں نے؟جاہل سیاسی کارکنوں نے؟لینڈ مافیا کی سرپرستی کرتے سندھی قوم پرست لیڈروں نے؟کس نے؟جو بھی آیا اس سے وہ گیت سنا جس گیت میں درد بھی ہے،اداسی بھی ہے،نوحہ بھی ہے اور اُمید بھی اور وہاں لوٹ گئے جہاں سے آئے تھے،پر کسی نے بھی ا ن آنکھوں میں نہیں دیکھا اس آب کو جو جوانی میں غصہ تھا اور پیرانی سالی میں پانی بن گیا۔
وہ دھرتی سے محبت کا پانی تھا
وہ دیس سے وچن کا پانی تھا
وہ محبت سے بچھڑ جانے کا پانی تھا
وہ حیا کا پانی تھا
ایسا پانی جس سے پھولوں میں خوشبو بھر جائے
اور مہندی کے گلوں میں رنگ
اس آب زدہ آنکھوں کو اس شاعر نے بھی نہیں دیکھا جو جب وہ شاعر، وزیر موصوف نہیں تھا تو سندھ اس کے لیے وطن تھا اور جب وہ موصوف وزیر بنا تو سندھ اس کے لیے کرسی بن گئی اب اس کے جوتوں پر دیس کی دھول نہیں لگتی کیوں کہ وہ لگژری گاڑی میں سوار رہتا ہے
اب سندھ اور وطن تو بہت پیچھے رہ گیا اور وہ اب بہت آگے نکل گیا ہے اب وہ آب بھری آنکھوں والے کے دیس میں نہیں پر ماڈل ایان علی کا پڑوسی بن گیا ہے
اب ہواؤں سے اس کے گھر میں تھر کی”واری“ نہیں آتی
پر اب بلاول ہاؤس کے بوفوں کی مہک اور پرفیومز کی خوشبو آتی ہے
کوئی نہیں جان پایا کہ اس کی آنکھوں میں آب کیوں رہتا ہے؟
بس وہ جان پا تے ہیں جو دربدری کا درد جھیل پاتے ہیں اور اپنے دیس میں بنجارے بنے رہتے ہیں کبھی کہاں تو کبھی کہاں وہ جان پاتے ہیں کہ جب آنکھیں سدا کی ”آبلی“ ہو جائیں تو درد کہاں ہوتا ہے آگ کہاں جلتی ہے؟
وہ بھی تو سندھو کنارے بنجارا تھا
نہ تو اس کے حصے میں پہچان آئی اور نہ دھرتی
رہا سہا اک دریا بہتا تھا،وہ بھی جب، جب وہ سید کے مکتب میں دھرتی سے محبت کے سبق پڑھتا تھا اور اپنی آنکھوں سے بہتے دریا کو دیکھتا تھا،جب دھرتی کی محبت نے بے چین کیا تو کیا تھا اس کے پاس؟
شاید سب کچھ،شاید کچھ بھی نہیں؟
شاید بھرا دامن،شاید دامن تر؟
پھر بہتا دریا خشک ہوا اور وہ پورے کا پورا پانی آنکھوں میں اُمڈ آیا،اور وہ”آبلی“ آنکھوں سے اُمید کے دئیے جلتا رہا۔
اس کا وجود جمنا جیسا تھا،سانولا سانولا سا
اور اس کی آنکھوں میں سندھو بھر گیا تھا
ایسے لوگ ”لائیٹ ٹاور“ ہو تے ہیں
اور وہ سندھ کا لائیٹ ٹاور تھا
وہ دانشور ہر گز نہ تھا۔اس نے بہت سی کتابیں بھی نہیں پڑھیں تھیں
وہ تو سیدھا سادھا ساانسان تھا جو سندھ کے باسٹرڈ دانشور تو دانشور پر مکار ناریوں کے نرغے میں بھی آجاتا تھا اور اسے مائیک دے کر خود ایک سائیڈ پر ہوکر سگریٹ پیتیں رہتیں اور یہ بنجارا اپنی ماں بولی میں دیس سے محبت کے گیت الاپتا رہتا
وہ دھرتی سے محبت کا آخری سورج تھا جو کل غروب ہو گیا
اب شاید کبھی طلوع نہ ہو
اور یہ سچ بھی ہے رو ز کا غروب سورج طلوع نہیں ہوتا
اور ہر روز نیا سورج طلوع ہوتا ہے
محبت کا سورج ڈوب گیا اور اب تو دیس میں دانشوری کا سورج طلوع ہوگا
جو اپنی بھونکے گا اپنی سمجھے گا
پھر پاگل ہوگا اور کسی کو کاٹ کھائے گا
اور پھر گولی کھا کر قتل ہو جائے گا
جب اس کے دیس میں کوئلہ ملا تو وہ جب بھی دیس سے محبت کے گیت لکھ رہا تھا
اور سندھ کے باسٹرڈ دانشور منھ ٹیڑا کر کے انگریزی بول کر اینگرو کے سی ای او کے پیر پکڑ رہے تھے
جب بھی اس کے ہاتھ میں دیس کی محبت کا پرچم تھا
سندھی مکار دانشور گلے میں ٹائی لگا کر اینگرو کے چکر لگا رہے تھے
اور یہ قلندر گلے میں اجرک ڈالے تھر کی واری میں گھوم رہا تھا
سندھ کے مکار ادیب کارونجھر کے تکڑے تکڑے کر وارہے تھے
یہ کارونجھر کے موروں کے ساتھ
کارونجھر کا ماتم کر رہا تھا
سندھ کے بسٹرڈ ادیب بلاول ہاؤس کے چکر لگا رہے تھے
اور یہ اس غم میں گھل رہا تھا کہ اس سال مہندی کے گلوں پر رنگ کیوں نہیں چڑھا
سندھ کے میلائی ادیب میلوں پر قبضے کر رہے تھے
اور یہ تھر کی بھٹ پر چڑھ کر لطیف کو گا رہا تھا
مکار عورتیں حیدر آباد میں ایاز کو کیش کر رہی تھیں
اور یہ،یہ سوچ رہا تھا کہ ”ادب نے انسان کو کتنا بے ادب کر دیا ہے؟!“
تو کون جان پائے گا کہ اس کی آنکھیں ”آبلی“ کیوں تھیں؟
وہ محبت کا پرچم تھا
دیس کی سچی پکی اور شاید آخری محبت
وہ پرچم سرنگوں ہو گیا
کیوں کہ سندھو کنارے کا مکیں
جمنا جیسا
جمن۔۔۔۔۔۔جلتے دئیے کی ماند بجھ گیا
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں