لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر اینڈ واٹر میرین سائنسز اوتھل کے طلباء و طالبات کا یونیورسٹی میں سہولیات کے فقدان اور جائز مطالبات کے تسلیم کرنے کے حق میں کلاسوں کا بائیکاٹ کرکے لسبیلہ یونیورسٹی کے مین گیٹ پر احتجاجی مظاہرہ کیا-
طلبا و طالبات نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز آٹھا رکھے تھے اس دوران طلبا نے انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی کی طلباء کا کہنا تھا کہ لسبیلہ یونیورسٹی کو کروڑوں کابجٹ ملنے کے باوجود سہولیات کا فقدان ہے۔
لسبیلہ یونیورسٹی میں بلوچستان کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے طلبا زیرتعلیم ہیں یہ واحد ادارہ ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ دوردراز اور پسماندہ علاقوں سے اپنی امید،امنگوں اور تعلیم حاصل کرنے کا جزبہ لے یہاں پر ایڈمیشن لیتے ہیں تاکہ وہ اعلیٰ معیاری تعلیم حاصل کرکے مستقبل میں اپنی قوم اور علاقے کے لئے بہتر کردار ادا کرسکیں لیکن یہاں انتظامیہ کی اقرباء پروری، فرائض سے غفلت کی وجہ سے انہیں بنیادی سہولیات اور تعلیمی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے جس کی وجہ سے انہیں مختلف مسائل درپیش ہیں۔
طلباء کا کہنا تھا ان مسائل میں اسکالر شپس پر من پسند افراد نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور دیگر کئی مسائل حل کے متقاضی ہیں جن کا ہم مکمل طور پر حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں مذید انہوں نے کہا کہ بلوچ طلباء و طالبات دور دراز علاقوں سے لسبیلہ یونیورسٹی اس لئے آتے ہیں کہ یہاں وہ اپنے تعلیمی عمل کو جاری رکھ سکیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ ان کی معاشی حالت کو نظر انداز کرتے ہوئے ایڈمیشن سمیت بی ایس اور ایم فل کی فیس میں بھاری اضافہ کیا گیا ہے جو غریب اور تنگ دست طلبا کے لیئے مزید معاشی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں اچانک فیسوں میں اضافے سے اسٹوڈنٹس انتہائی پریشان ہیں اور زیادہ تر اسٹوڈنٹس کو اپنی تعلیم ترک کرنا پڑ رہی ہے-
طلباء کا کہنا تھا اسکالر شپس اس لیئے دی جاتی ہی تاکہ غریب طلباء کی تعلیمی مدد ہوسکے لیکن ستم ظریفی سے لسبیلہ یونیورسٹی کے اقرباپرور اور سفارشی ماحول میں اسکالر شپس پر اشرافیہ اور جاگیردار لوگ قابض ہیں حتیٰ کے اسکالرشپس ایسے امیر طلبا کو مل رہے جن کے والد یونیورسٹی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جوکہ غریب طلباء کے ساتھ سراسر زیادتی کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ چند طلبا کو اسکالر شپ ملتی ہے تو انکے چیکس بروقت نہیں ملتے یونیورسٹی کی انتظامی سرگرمیاں اتنی سست روی کا شکار ہیں کہ چیک وصول کرنے کے لیے مہینے درکار ہیں یونیورسٹی انتظامیہ اپنیانتظامی سرگرمیوں میں بالکل لاتعلق نظر آرہے ہیں جن کا خمیازہ غریب طلبا کو مختلف صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے-
انہوں نے کہا کہ ہاسٹل میں صحت وصفائی کافقدان ہے اسکے علاوہ گرلز ہاسٹل کے میس میں طالبات کو غیر معیاری کھانا دیا جارہا ہے اس کے علاوہ طالبات کو بغیر میس کے باہر سے کھانا منگوانے پر بھی پابندی عائید کی گئی جس کے باعث طالبات ذہنی کوفت میں مبتلا ہے ہیں۔
لسبیلہ یونیورسٹی میں ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں لیکن یہاں پر نہ ہی پروفیشنل ڈاکٹر موجود ہیں نہ ادویات دستیاب ہیں مجبوراً طلبا کو DHQ ہسپتال اوتھل جانا پڑتا ہے لیکن یہاں بھی طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے اسٹوڈنٹس کو حب یا کراچی ریفر کیا جاتا ہے لہذا یونیورسٹی میں طلبا و طالبات کے لیے ہیلتھ کیئر کاقیام عمل میں لایا جائے اس کے علاوہ طلبا کو صاف پانی کیلئے مختلف ڈیپارٹمنٹ میں واٹر کولر تنصیب کئے گئے ہیں مگر واٹر کولر میں فلٹر سسٹم نہیں لگائے گئے جس کی وجہ سے طلباء کو پینے کے لئے صاف پانی دستیاب نہیں لہذاطلبا کو صاف پینے کا پانی سمیت دیگر تمام سہولہات مہیا کی جائے تاکہ اسٹوڈنٹس اپنی تعیلم بہترین طریقے سے حاصل کرسکیں-
طلباء کا مزید کہنا تھا اس حوالے سے گزشتہ دن طلباء نے پریس کانفرنس کے ذریعے انتظامیہ کو آگاہ بھی کرچکے تھے لیکن انتظامیہ نے اس پر بھی کوئی عمل نہیں کیا انہوں نے کہا ہے کہ لسبیلہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ہمارے مطالبات تسلیم کریں ورنہ ہم اپنے احتجاج کے دائرے کو مزید وسیع کرینگے۔
اس دوران وائس چانسلر نے طلبا و طالبات سے کامیاب مذکرات کے بعد احتجاج ختم کردیا گیا مذاکرات میں 3 دن کے اندار ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس میں طلبا و طالباب بھی شامل ہونگے پندرہ دن کے اندر 50 فیصد طالبات کے جائز مسائل کو حل کیا جائے گا-