میرا گاؤں اور وہاں کے رہنے والے لوگوں کی زندگی ۔ نائلہ گنج بلوچ

500

میرا گاؤں اور وہاں کے رہنے والے لوگوں کی زندگی

تحریر: نائلہ گنج بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میرا تعلق ایک ایسے گاؤں سے ہے، جہاں نہ کوئی ہسپتال موجود ہے اور نہ کوئی اچھی اسکول دستیاب ہے۔ شاید ایک دو اسکول ہوں گے مگر آپ کو وہاں کوئی استاد نظر نہیں آتا، طلبا و طالبات اسکول تو جاتے ہیں لیکن پڑھنے کی بجائے اسکول کے گراؤنڈ میں کھیل رہے ہوتے ہیں، یا ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے ہوتے ہیں۔

تعمیر کردہ اسکول کی کھڑی عمارت تو کسی کو نہیں پڑھا سکتا، اسکول کے ہونے سے کوئی تعلیم یافتہ نہیں ہوتا جس طرح ماں، باپ کے بغیر گھر گھر نہیں رہتا، اسی طرح اگر اسکول میں استاد موجود نہ ہو تو وہ اسکول نہیں رہتا۔

ادارے کو اسکول کا نام اس لئے دیا گیا ہے جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت کی جاتی ہے، اسکول کے اندر بچّوں کی تعلیم اور تربیت اساتذہ کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر ہمارے اسکولوں میں ایسے اساتذہ تعینات کرتے جو ہمارے بچّوں کی صحیح معنوں میں تعلیم و تربیت کرتے تو شاید آنے والے کل میں ہزاروں ڈاکٹرز، انجنئیرز، پروفیسرز اور دیگر ایسے دانشور پیدا کرتے جو مستقبل میں قوم کیلئے تعلیم، سیاست اور دیگر شعبے میں وہ اپنا اہم کردار ادا کرکے بلوچ قوم کو تاریکی اور پسماندگی سے نکال لیتے، لیکن بدبختی سے آج ہم ایسے ہستوں سے محروم ہیں۔

اگر میں لڑکوں کی بات کروں وہ پھر بھی اپنے علم کے پیاس کوبجھانے کیلئے تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کسی نہ کسی شہر میں جا کر پڑھ کر تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں لیکن اس وقت ہمارے معاشرے میں ایسے سینکڑوں لڑکے موجود ہیں جو پڑھنے کا شوق رکھتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں، بھوک، افلاس، غربت آہنی دیوار کی طرح آڑے آ کر انکے سنہری خوابوں کو چکنا چور کردی ہیں۔ میں نے اپنے گاؤں میں اعلیٰ تعلیم کے خواب سجھائے ایسے کئی بچّے دیکھی ہیں، جو پڑھنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ غربت، تنگدستی اور معاشی مجبوریوں کے سامنے بے بس ہیں۔

میں جب بھی شہر کے تنگ و تاریک گلیوں سے نکل کر اپنے گاؤں کا رخ کرتی ہوں تو نیچر کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے گاؤں کے باسیوں کی حالت زار کو دیکھ کر انہیں اداس بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوں۔ جب اپنے ہم عصر لڑکیوں کو دیکھتی ہوں تو ان میں کوئی بچے کو دودھ پلا رہی ہوتی ہے تو کوئی حاملہ۔ کوئی جنگل سے لکڑیاں چن کر آرہی ہوتی ہے تو کوئی سماجی اور معاشرتی زنجیروں میں قید ایک بند کمرے میں زندگی کے شب و روز گزار رہی ہوتی ہے۔

اگر میں غلط نہ ہوں تو میرے اندازے کے مطابق گاؤں کے محض دو فیصد لڑکیاں حصول تعلیم کے لئے شہروں کا رخ کرتی ہیں۔ یہ دو فیصد لڑکیاں وہی ہیں جن کے رشتہ دار یا تو شہروں میں رہائش پذیر ہیں یا انکے خاندان گاؤں سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔

یہ سوچتے سوچتے میں نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہوں کہ نئی صبح ہمارے گاؤں کے لئے خوشی کی نوید لے کر آئے گی کہ ہمارے گاؤں میں اچھے سکول قائم ہوں گے جہاں بچے اور بچیاں جدید تعلیم سے آراستہ ہوکر آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے اہل ہوں گے۔ یہاں بنیادی سہولیت سمیت صحت کے مراکز قائم ہوں گے۔
اگر میں ہسپتال کی بات کروں تو وہاں ہسپتال کا بالکل نام ونشان تک نہیں، افسوس کی بات ہے کہ ہمارے علاقے میں بیماریوں کے کیسزز بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں، آخر ان کا سبب کیا ہے؟ ہاں البتہ مذہبی ٹھیکدار تو فتوے دیکر کہتے ہیں کہ ان لوگوں کی نافرمانی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ اللّٰہ کی عبادت نہیں کرتے۔ تو میں ان مذہبی پیشواؤں اور اللّٰہ کے نزدیک بندوں سے یہ سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر آپ بیمار ہوتے ہیں تو آپ ہسپتال نہیں جاتے؟ آپ اتنی صبر کرتے ہیں کہ خود بخود ٹھیک ہو جائیں ؟ انسان ایک ایسی مخلوق ہے کہ انہیں جتنی بھی سہولیات میسر ہوں وہ اتنی ہی بے صبری کے ساتھ کوئی طریقہ اپناتی ہے، اگر ایسی بات ہے کہ مذہبی لوگ کبھی بیمار نہیں ہوتے یا وہ بنا علاج کے ٹیھک ہوتے ہیں پھر یہ مذہبی ملکوں میں ہسپتال کیوں بنائی گئی ہے، انہیں تو ہسپتال کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، مگر ہر شہر میں ایک سے بڑھ کر ایک ہسپتال بنایا گیا ہے، پھر ہم غریب اور لاچار لوگوں کے لئے کیوں یہ ساری چیزیں؟ میرے علاقے کے لوگ تو بخار سے مر رہے ہیں جو آج کے دور میں کینسر ایک چھوٹی سی بیماری بنی ہے، اس لئے کہ وہاں یہ سب سہولیات دستیاب ہے وہاں جدید سہولیات سے آراستہ ہسپتال تعمیر کئے گئے ہیں، اچھے اچھے ڈاکٹرز موجود ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نبھا رہے ہیں، مگر ہمارے لئے تو یہ چھوٹے موٹے بخار اور زکام جیسی بیماریاں موت کے سبب بن چکے ہیں۔

انہی خیالات سے نکل کر جب روشنیوں کے شہر کراچی کے لیے رخت سفر باندھ لیتی ہوں جہاں مجھے جامعہ کراچی میں اپنے کلاس اٹینڈ کرنے ہوتے ہیں اور میرے گاؤں والے کسی مسیح کے منتظر ہوتی ہیں۔ جب کراچی پہنچ کر بڑے بڑے عمارات پر میری نظر پڑتی ہے تو یہاں بڑے بڑے ہسپتال اور یونیورسٹیز کے بورڈ آویزاں نظر آتی ہیں اور میری دل سے ایک آہ نکلتی ہے کاش ! ہمارے گاؤں میں یونیورسٹی نہ سہی ایک اچھی سکول ہوتی جہاں بچے اور بچیاں اچھے اور معیاری تعلیم حاصل کر سکتے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں