ملتان سے بہت دور مائیں جل رہی ہیں
محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
مقدس کتابوں کے کچھ اوراق ایسے الفاظ سے بھی شروع ہو تے ہیں کہ
”صاف اچھی لکھائی میں تحریر ہو
پھر وہ تنہائی بھی محسوس نہیں کریں گے
معلوم ہوگا کہ ان کا نام،ان کے پہلو میں دفن ہے
زمین کے نیچے وہ اکیلے نہیں“
اور مقدس کتابوں میں ایسی ہدایات بھی ملتی ہیں کہ
”جب وہ تمہارے ساتھ نہ رہیں
وہ بلند ہوجائیں اور تم پست
تو ان کے نام تختیوں پر لکھو
اور انہیں پہاڑی ٹیلوں پر چھوڑ آؤ وہ اب تمہا رے ساتھ نہیں
اُڑتی گدھیں انہیں زرہ زرہ کریں۔“
انہیں دفن کرو اور انہیں اوچے ٹیلوں پر رکھو،ان کے نام تختیوں پر لکھو،ان کے نام لکھ کر ان کے ساتھ دفن کرو تو وہ اکیلائی کےعذاب سے محفوظ رہیں،پر یہ سب مقدس اوراقوں میں ان کے لیے درج ہے جنہیں کوئی تو جانے والا ہو،کوئی تو دفن کرنے والا ہو،کوئی تونام لکھ کر ساتھ دفن کرنے والا ہو،کوئی تو سرد لاش کاندھے پر رکھ کر پہاڑی ٹیلے پر پہنچانے والا ہو،پر جو نامعلوم سے ہیں کا کیا؟
ان کا تو مقدس کتابوں میں بھی کوئی ذکر نہیں،اور ان کو بہت سے کاندھے،بہت سے ہاتھ،فقط ایک نام اور اونچا ٹیلا بھی مسیرنہیں،پر گِدھ انہیں بھی نوچ لیتی ہیں جو بس نامعلوم سے ہوتے ہیں،نامعلوم سے رہتے ہیں،نامعلوم سے ہی مر جاتے ہیں اور آخر تکنامعلوم ہی رہتے ہیں
ان کا سفر نا معلوم سے شروع ہوتا ہے اور نامعلوم پر ہی ختم ہوجاتا ہے
وہ جز جز بن کر بکھر جاتے ہیں،وہ ریزہ ریزہ بن کر ہواؤں کی نظر ہو جا تے ہیں
ان کے نصیب میں نہ مٹی آتی ہے،اور نہ ہی آگ
نہ تو وہ جل پاتے ہیں اور نہ خاک ہو پا تے ہیں!
وہ نامعلوم سے نا معلوم ہی رہتے ہیں۔سرد خانوں کی سردی میں جلتے رہتے ہیں،یاتو سرکاری اسپتالوں کی گندی چھتوں پر جلتے رہتےہیں،کون جانے،کون کہاں سے آیا؟کون تھا؟کہاں پہنچا؟اور اسے آگے کہاں تک جانا تھا؟موت نے اسے کیسے آلیا اور وہ اک نام،اکشناخت سے نا ممعلوم کیسے بن گیا؟
ہم کچھ نہیں جانتے،ہمیں کچھ خبر نہیں،جب یہ خبریں خود دھماکہ بن کر اپنے اندر میں پھٹ پڑتی ہیں تو اس کی آگ اور نا معلوملاشوں سے اُٹھتا تعفن ہم تک بھی پہنچ پاتا ہے اور ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟!سارا شہر کچھ دنوں کے لیے نہصحیح،کچھ گھنٹوں کے لیے نہ صحیح پر کچھ لمحوں کے لیے ہی صحیح پر رُک سا جاتا ہے اور پورے شہر کا آکاش گِدھوں سے بھرجاتا ہے
ایسا ہی کچھ اس وقت ملتان کے ساتھ ہورہا ہے،جب نامعلوم لاشوں کا تعفن اپنے سے اُٹھا اور وہ خبر اپنے آپ دھماکے سے پھٹ پڑیتو کچھ دنوں کے لیے نہ صحیح،کچھ گھنٹوں کے لیے نہ صحیح،پر کچھ لمحوں کے لیے رُک سا گیا اور ملتان کا آکاش اُڑتی گِدھوں سےبھر گیا
ملتان تو اب چل پڑا ہے،پر ملتان کا آکاش پہلے بھی گِدھوں سے اَٹا ہوا تھا اور اب بھی ملتان کا آکاش اُڑتی،چیختی،شور کرتی گِدھوسے بھرا ہوا ہے کیوں؟
اس لیے کہ ملتان میں کوئی ایک دو نہیں،تین،چار نہیں،ایک دو سو نہیں،تین چار سو نہیں پر پانچ سوسے بھی زائد نامعلوم لاشیںموجود ہیں،جو سُڑ چکی ہیں،گَل چکی ہیں جو اب اپنے ہونے کا پتا دے رہی ہیں جو اب اپنی موجودگی کا پتا دے رہی ہیں اور کہ رہیہیں
”یا خاک نشین کرو
یا بُردِ آب کرو
یا جلا دو گناہوں کی مانند“
اتنی تعداد میں یہ نا معلوم سی لاشیں بھلے میرے،آپ کے یا ملک کے باقی باشندوں کے سکھ چین میں کوئی خلل نہ ڈالیں،پر بلوچستاناور بلوچ مائیں؟!
اب بھی ”مائے ئی نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی؟“
کی آگ میں جل رہی ہیں۔وہ مائیں جو دردکو دامن گیر کیے ہوئے ہیں۔وہ مائیں جن کے دامن سے درد سے بھرا ہوا ہے۔وہ مائیں جوپہاڑوں کی ماند بُلند تھیں اب اپنوں کی جدائی میں پتھروں سے پیوستہ ہیں۔وہ مائیں جنہوں نے بہت سا سفر کیا ہے۔وہ مائیں جن کےپیروں سے درد کا پتا چلتا ہے۔وہ مائیں جو رو رو کر نور گنوا چکی ہیں۔وہ مائیں جن کی مانگیں میلی اور دل شکستہ ہیں۔وہ مائیں جوپہلے اپنے گھروں سے دربدر ہوئیں،پھر گھرکا پتا بھولیں،پھر گھر کو جانے والی گلی بھولیں اب تو ان تصویروں کو بھی بھول رہی ہیںجو ان کے تصور میں نقش ہیں!
وہ مائیں جو سسئی کو مات دے چکی ہیں۔وہ مائیں جن کا سفر سسئی کا زیادہ ہے۔وہ مائیں جن کا درد کسی صوفی کلام میں نہیںسما سکتا،وہ مائیں جن کو مادھو لال حسین دیکھے تو اس لائن کو جلا دے کہ
”مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی!“
مادھو کوئی نیا نوحہ لکھے
کوئی نیا درد لکھے!
یہ مقولہ بہت پرانا ہوا کہ
”رو تو کوئی بھی سکتا ہے،پر نہ رونے کے لیے مردانگی چاہیے!“
نہیں!وہ مائیں درد میں ایسے رو تی ہیں جیسے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بارش برسے
وہ بھی چھماچھم۔۔۔۔
پہاڑوں پر برستی بارش،پہاڑوں پر نشان چھوڑ جاتی ہے جسے شاعری کی بولی میں ”نار“کہتے ہیں
اور آنسو۔۔۔روتی ماؤں کے گالوں پر آنسو بھی نشان چھوڑ جاتے ہیں
جسے بے شرم ماہر لسانیت اب تک کوئی نام نہیں دے سکے
ان نامعلوم لاشوں کا بھلے ڈی این اے نہ کراؤ
ان نامعلوم لاشوں کو بھلے ناموں کے ساتھ دفن نہ کرو
بھلے مقدس اوراقوں کے ایسے الفاظوں کو نہ سمجھ پاؤ کہ
”صاف اچھی لکھائی میں تحریر ہو
پھر وہ تنہائی بھی محسوس نہیں کریں گے
معلوم ہوگا کہ ان کا نام،ان کے پہلو میں دفن ہے
زمین کے نیچے معض وہ اکیلے نہیں!“
پر پھر بھی ان لاشوں کو سُپرد خاک کردو
کیوں کے ملتان سے بہت دور
بہت سی مائیں بہت بے چین ہیں
کسی کا حمل گم ہے
کسی کا نوورز گم ہے
کسی کادین محمد گم ہے
کسی کا ذاکر گم ہے
گمشدگی کے درد کی تپش کو بس وہ مائیں ہی جان پاتی ہیں
جن کے دامنوں سے آگ دامن گیر ہے
باقی میں کیا اور آپ کیا؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں