ٹرانس جینڈر ایکٹ کے اثرات
تحریر: فیصل کریم
دی بلوچستان پوسٹ
ٹرانس جینڈر یعنی کہ خواجہ سرا، ۲۰۱۸ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آئین میں ٹرانس جینڈر ایکٹ پیش کیا گیا۔ اس ایکٹ یا بل کا مقصد صرف اور صرف ٹرانس جینڈرز ہیں جسے ہم عام طور پر خواجہ سرا کہتے ہیں، ان کے حقوق کو قانونی طور پر آئین کے تحت دیا جائے اس لیئےیہ ایکٹ پیش کیا گیا۔
مارچ ۲۰۲۰ میں بین الا قوامی عدالت انصاف نے بین الا قوامی ٹرانس جینڈر ڈے آف وزیبلٹی کے موقع پر ایک مقالہ جاری کرنے کے بعد بین الاقوامی عدالت انصاف نے خواجہ سراؤں کے حقوق پیش کیئے۔الجزائر دنیا کا پہلا واحد ملک ہے جہاں قانونی طور پر ٹرانس جینڈرز کو نہ صرف تسلیم کیا گیا بلکہ ان کے حقوق کو واضح طور پر دیئے جاتے ہیں۔
اب پاکستان میں بھی قانونی طور پر ٹرانس جینڈر کے حقوق کے لیئےآئین پاکستان میں ایک بِل یا ایکٹ پاس کیا گیا جو کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے نام سے پہچانا جاتا ہے اس بِل یا ایکٹ کو پیش کرنے کا مقصد صرف اور صرف خواجہ سراؤں پر ماضی کی زیادتیوں کو کم کر کے ان کی حقوق کو قانونی طور پر مہییاکرنا ہے۔
ماضی میں ٹرانس جینڈرز پر زیادتی کرنے والے کچھ واقعات درج ذیل ہیں
۲۰۱۵ میں ۶۸ (68) ٹرانس جینڈرکا قتل ہونا اور ۱۵۰۰(1500) سے زائد کے ساتھ مختلف واقعات میں جسمانی تشدد کیا گیا۔
۲۰۱۸ میں ۴۸۰(480) سے زائد ٹرانس جینڈرز کو خیبر پختونخواہ میں مختلف واقعات میں جسمانی تشدد کر کے تکلیف پہنچائی گئی ٹرانس جینڈر یعنی خواجہ سراؤں کی کل آبادی ۱۹۹۸ کی مردم شماری میں ۱۰۴۱۸(10418) تھا اور جبکہ ۲۰۱۵ میں میں وزارت صحت کی جانب سے پیش کیئے جانے والی رپورٹ کے مطابق ان کی آبادی ۱۵۰۰۰۰(150000) سے زائد بتایا گیا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق خواجہ سراؤں کے حقوق۔
۱۔ ٹرانس جینڈرز کو قانونی طور پر ڈرائیونگ لائیسنس اور پاسپورٹ دیا جائیگا۔
۲۔ٹرانس جینڈر کو اجازت ہے وہ اپنی جنس کو اپنی مرضی سے نادراکے ریکارڈ میں تبدیل کر سکے گا۔
۳۔ عوام کے سامنے کوئی بھی ٹرانس جینڈر کو ہراس یا تنگ نہیں کریگا۔
۴۔حکومت پاکستان کی طرف سے ٹرانس جینڈرز کو بنیادی سہولیات فراہم کی جائینگی جیسے کہ تعلیم اور صحت ۔
۵۔ حکومت پاکستان جیلوں میں بھی ان کے لئے الگ الگ کمرے بنائے گی۔
۶۔ اگر کوئی بھی شخص زبردستی ٹرانس جینڈرز سے پین ہینڈلنگ کروانے کی کوشش کر یگا اس شخص پر چھ سال قید اور ۵۰۰۰۰ جرمانہ عائد کی جائیگی
ٹرانس جینڈر ایکٹ کے ان پڑھ پاکستانی عوام پر اثرات۔
یہ واضح ہے ٹرانس جینڈرایکٹ پاکستان کی آئین میں صرف خواجہ سراؤں کے حقوق کو قانونی طور پر دینا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کچھ طبقے اس کو دوسری رخ پر رنگ دے رہے ہیں جسے ہمارے مہذب مولوی حضرات و دیگر کا کہنا ہے حکومت پاکستان کی آئین میں اسلام کی تعلیمات کو توڑ کر ایک ایساعمل نافذ کیا ہے جوکہ شرمناک ہےبدقسمتی سے انھیں کون سمجھائے اس قانون کا اصل مقصد صرف اور صرف خواجہ سراؤں کے حقوق کو قانونی طور پر تحفظ دیناہے۔
ہمارے معاشرے کے ان اَن پڑھ طبقوں نے اس عمل یا ایکٹ کا مطلب کچھ اس طرح رنگ دیا ہے جیسے ایک نارمل مرد اپنی مرضی سےعورت بنے اور ایک نارمل عورت اپنی مرضی سے مرد بنےیا دونوں نارمل مرد اور عورت اپنی مرضی سے اپنے نام اپنے جنس کے خلاف رکھے اتنا کافی نہیں ہے، وہ قوم لوط کی طرح ان کو رنگ دے رہے ہیں جیسے قوم لوط کےقوم نے ہم جنس پرستی کی اسی طرح رنگ دے رہے ہیں ایک مرد دوسرے مرد سے شادی کرسکتاہے اور ایک عورت دوسری عورت سے شادی کرسکتی ہے لہذٰا اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیئے حکومت پاکستان کو چاہیئے عوام کے اندر پھیلنے والی غلط فہمی کو دور کرے۔ دیگر صورتحال کے لیئے اس کے اثرات متاثرکن ہیں۔اور ان اثرات کی وجہ معاشرے میں بدمزگی پھیل سکتی ہے۔
معاشرےمیں اس بدرنگی کی روک تھام بہت ضروری ہے اس کو ہم اپنے معاشرے سے صرف اورصرف ایک زریعے سےروک سکتے ہیں اور وہ ہے سماجی آگاہی۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ملک بھر کے چھوٹے بڑے شھروں ،گاؤں اور قصبوں میں سیمینار کرائے اور اس ٹرانس جینڈرایکٹ کا اصل مقصد سیمینار کے زریعے لوگوں تک پہنچائے تاکہ معاشرے میں رہنے والے لوگ اس کی اصل مقصد سمجھیں اور اس کو رنگ نہ دیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں