پنجاب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بلوچستان کے بلوچ پشتون طلباء کا مطالبات کے حق میں احتجاجی دھرنا آج بھی جاری رہا۔طلباء بلوچستان کے ریزرو سیٹوں پر فیسوں کی وصولی، انتظامیہ کی جانب سے طلباء کو ہراساں کرنے کے خلاف دھرنا دیئے ہوئےہیں-
طلباء کا کہنا تھا بلوچستان کے طلباء جو بلوچستان کے مخصوص نشستوں پر پنجاب کے مختلف جامعات میں بغیر کوئی فیس ادا کیےتعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں تو اسی طرح سال میں درجنوں طلبا طویل سفر طے کرکے بلوچستان کے مخصوص نشستوں پر اسلامیہیونیورسٹی بہاولپور کا بھی رخ کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جامعہ حکومتی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 2020 سے بلوچستانکے غریب طلباء سے آدها فیصد فیس وصول کررہی ہے اور اس کے ساتھ بلوچستان کے طلباء کیلئے ہاسٹل کے دروازے بالکل بند کردئیے گئے ہیں جس کے خلاف بلوچستان کے طلباء نے 27 ستمبر بروز سوموار اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا لیکن انتظامیہ کی طرفسے مطالبات نہ سننے کی وجہ سے مجبوراً بلوچستان کے طلباء کو جامعہ کے مرکزی گیٹ کے سامنے دھرنا دینا پڑا۔
طلباء کا کہنا تھا پچھلے بارہ دنوں سے بلوچستان کے بلوچ اور پشتون طلباء یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے دھرنا دیئے ہوئےہیں لیکن انتظامیہ کی طرف سے طلباء کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی بھی سنجیدگی اختیار نہیں کی گئی لیکن ان سب کے برعکسانتظامیہ کی طرف سے بلوچستان کے طلباء کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جارہاہے اور طلباء کو ڈرا اور دھمکا کر احتجاج سےدور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ضلعی انتظامیہ اور بہاولپور پولیس کی طرف سے بھی طلباء کو مختلف طریقوں سے ہراساں کیاگیا ہے جس میں بلوچستان کے طلباء کے ہاسٹلز میں چھاپہ مارکر باقاعدہ ان کو ٹارچر کیا گیا بلوچستان طلباء کے تصویر لیے گئے اورکمروں کی تلاشی لی گئی۔ بہاولپور پولیس کی یہ غیر قانونی ہتھکنڈے یہاں پر ختم نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے کیمپ میں آ کر بلوچستانکے طلبہ کو دھمکی دی اور کیمپ کو زبردستی ختم کرنے کی دھمکی بھی دی گئ۔
دھرنے کے مقام سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے طلباء کا کہنا تھا یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے بلوچستان کے طلباء کو ڈرانے اوران کی آواز دبانے کی کوششیں یہاں تک ختم نہیں ہوئی بلکہ کیمپ کے تیسرے دن بلوچستان کے 9 طلباء کو بغیر ان کے موقف سنےیونیورسٹی سے بے دخل کردیا گیا اور یونیورسٹی میں ان کے انٹری پر مکمل طور پر پابندی لگا دی گئی۔
انہوں نے کہا طلباء علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اس علامتی بھوک ہڑتال کے دوران ہمیں بہت سارے مشکلات کاسامنا کرنا پڑا علامتی بھوک ہڑتال کی وجہ سے ہمارے طلباء کی صحت جسمانی اور ذہنی طور پر متاثر ہورہی ہے، طلباء نے بتایا کہاتوار کو ہمارے ایک دوست کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اس مشکل حالات کے دو دن بعد ہمیں یہی حالات دوبارہ دیکھنے پڑے ہمارےتین دوستوں کی حالت پھر سے بگڑ گئی، جس میں ایک فیمیل بھی شامل تھی جسے ہم فوراً سیکورٹی کی گاڑی میں ہسپتال لے گئے یہبات قابل ذکر ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ طلباء بے ہوش ہورہے ہیں پھر بھی ہمیں ایمبولینس سروس فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہیہماری کوئی شنوائی ہورہی ہے-
طلباء کا کہنا تھا افسوس ہیں کہ جامعہ اسلامیہ ہمارے دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اس پر سیاست کررہی ہے اور پاکستانکے نامور صحافیوں کو غلط معلومات فراہم کر کے ہمارے مسئلے کو غیرسنجیدہ اور محض پروپیگینڈہ قرار دینا چارہی ہے جامعہاسلامیہ کی انتظامیہ لوگوں میں یہ تاثر بنانے کی کوشش کررہی ہے کہ ہم پڑھنے نہیں آئے ہیں بلکہ لڑنے جھگڑنے اور احتجاج کرنےکیلئے آئے ہیں جو ایک تعلیمی ادارے اور اس کے انتظامیہ کے لئے باعث شرم کی بات ہے ایسے پروپیگینڈہ جامعہ اور انتظامیہ کیلئےبلوچستان کے طلباء کے ذہنوں میں منفی اثرات بھی پیدا کرسکتے ہیں ۔
انہوں نے کہا ہمارا احتجاج کوٹہ سیٹ پر آدھا فیصد فیس طلبی کے خلاف ہے جامعہ اسلامیہ میں سالانہ بلوچستان کے طلباء کیلئے126 سیٹیں مختص کی گئی ہیں اور عموماً 60 یا 70 طلباء سالانہ داخلہ لیتے ہیں 2020 میں جب بلوچستان کے کوٹہ سیٹ پر 50 فیصد فیس لگائی گئی تو تب سے لے کر آج تک 80 طلباء بھی نہیں آئے لیکن انتظامیہ یہ غلط بیانی کررہی ہے کہ 1000 طلباء آئے ہیںہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ نہ تو ڈرانے دھمکانے سے ہمارے حوصلے پست ہونگے اور نہ ہی غلط معلومات فراہم کرنے سے ہم کمزورہوں گے ہم اپنے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے بروز پیر 10 اکتوبر تک اگر جامعہ اسلامیہ کی طرف سے مسئلے کا حل نہیں نکلا گیاتو مجبوراً ہم جامعہ کے اندر ایک پرامن ریلی نکالیں گے یا جامعہ کی مرکزی گیٹ کو بھی بند کرسکتے ہیں اور تادم بھوک ہڑتالی کیمپمیں بھی بیٹھ سکتے ہیں ۔
طلباء کا مزید کہنا تھا ہم تمام طلباء، صحافی حضرات،طلبا تنظیموں، انسانی حقوق کے علمبرداروں، سیول سوسائٹی علم دوست، قلمدوست اور تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے مؤدبانہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں ہماری آواز بنیں اور ہمارابھرپور ساتھ دیں۔