علم و ادب کو بازیاب کرو
تحریر: یوسف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کراچی کے اردو بازار میں اردو،انگریزی،سندھی اور شاید کم و بیش بلوچی کتابوں کے انبار میں کچھ لوگ گھس آئے۔ اردو بازار میں اردو زبان میں لکھا ” علم و ادب پبلیکیشنز” کی دکان سے ایک بلوچ ناشر کو اٹھا کے چلے گئے۔
ہرپل “کچھ تو کیا ہوگا” سوچنے اور کہنے والوں کی کنفیوژن غالباً اس لیے آج کل کم ہوئی ہے کہ بقول احمد سلمان
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے
جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے” والی طریقہِ کار، کار آمد ہوئی ہے۔
ناشر کی دکان پر نہ کوئی بم ملا اور نہ ہی بارود کی نٹ و بولٹ۔ فقط چند اٹھانے والوں کی اپنی قومی زبان کی کتب اور کہیں لالا فہیم کی مادری زبان بلوچی کتابوں کے مجموعے کے سوا۔
بہرحال کنفیوژن اٹھانے والوں کی یا تو بدستور موجود ہے اور شاید ہی حکمِ اوّل ان کے لیے کنفیوژن کی منکر ہے۔
لالا فہیم کا تعلق اُس قبیل سے ہے جو نوجوانوں کو اپنی سیاسی، سماجی، علاقائی اور قبائلی تاریخ سمجھانے میں لگے رہتے ہیں۔
سلیم کرد کی زندگی، کتابی و سیاسی کاموں سے لالا فہیم نے مجھے روشناس کروایا تھا اور روزنِ زنداں پڑھنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔
بلوچ سیاسی تاریخ کے ناموں میں ایک شیرباز خان مزاری ہیں۔ ان کی کتاب و ان کی سیاسی زندگی کا درس علم و ادب کی دکان سے مجھے ملی تھی۔
بلوچ سیاسی تاریخ کے ہر فرد کی داستان ہر لمحہ لالا کی زبانی تھی۔ لالا نے کئی سال قبل دکان کے سامنے کچھ بلوچ و غیر بلوچ انقلابی، سیاسی و قبائلی رہبروں کی تصاویر آویزاں کیے تھے اور آج مجھے لالا کی تصویر بھی اسی دکان کے سامنے نظر آئی جس پہ لکھا تھا “لالا فہیم کو بازیاب کرو”۔
غالباً یہ نعرہ بدستور کچھ کانوں میں گونج رہا ہوگا کئی ایک زبانوں سے نکل رہا ہوگا۔ لیکن باخدا اگر میرے کان کچھ سن رہے ہیں اور زبان گفت ہے وہ یہ ہے کہ “علم و ادب کو بازیاب کرو”
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں