ایک نئی امید – ایس کے بلوچ

322

ایک نئی امید

تحریر: ایس کے بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بات راج کی آتی ہے تو سمجھنا ہوگا کہ ایک پورے خواب کی بات ہو رہی ہے، وہ خواب جہاں ہر چیز کی برابری ہو ، ایک ایسا نظام جہاں غلامی کا کوئی اثر باقی نہ ہو۔ یعنی راج میں بہت سے ایسے نیک ارادے پیوند ہیں جو ہمارے بلوچ قوم کے لئے اللہ کی رحمت ثابت ہوسکتے ہیں۔ راج کے خواب تب تعبیر پا سکتے ہیں، جب ہمارا ہر نوجوان راج کے خوابوں کو دیکھنا پسند کرے۔

“راج” بلوچی زبان میں”قوم” کو کہتے ہیں۔ لیکن آج میں بلوچ قوم کی نہیں (راج) میگزین کے بارے میں لکھ رہا ہوں، جسے ہم ‘راج’ کے نام سے جانتے ہیں۔

اس میگزین میں ہمارے قوم کے حالات و احساسات، ادب و فلسفہ، اور تاریخ و ثقافت کے بارے میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے مختلف مصنفوں سے لکھوایا ہے۔ بلوچستان یعنی بلوچ دھرتی ماں کی تاریخ میں بہت سی قومی تنظیمیں اور مختلف سماجی کارکنان سامنے آ ئے ہیں، لیکن وقت و حالات کے ساتھ وہ سرزمین پر اتنا کامیاب نہیں ہوئے جنتی ہماری اُمیدیں تھے۔

بلوچ تاریخ کے صفحوں پر ہمیشہ بہادر، نیک اعمال، قوم پرست اور وطن دوستوں کی مثالیں قائم ہیں انکی فہرست اتنی لمبی ہے جو ایک چھوٹے سی کالم میں بیان نہیں ہوسکتے۔ مختلف دور کے ہولناک حالات کے نقطہِ نظر سے دیکھیں ، تو کچھ عظیم اشخاص مثلآ یوسف عزیز مگسی ، عبدلعزیز کرد، اور بہت سارے لوگ برطانیہ سامراج کے خلاف اپنے سرزمین کی دفاع کیلئے مزاحمت کرتے رہے۔

جب برطانیہ بلوچستان کے ساتھ ساتھ باقی مشرقی ایشیا کے ممالک کو آزاد کرنے لگے ، لیکن اپنا propagandas, narratives اور discourses باقی قوتوں پر چھوڑ کر چلا گیا۔ اور انگریز سامراج کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی سرداروں، اور قوم کے ٹھیکداروں نے دوبارہ جنم لیا۔ جو تاحال جاری ہے۔

ان سرداروں اور نوابوں کی حویلیوں میں نامعلوم قوتیں بھی آنے لگے اور انہیں اپنی پروپگنڈے سے استحصالی نظام کو برقرار رکھنے کے اعزاز ملے۔ آہستہ آہستہ اسمبلیوں کے ساتھ حکومتی مختلف اداروں میں ،چوکیداروں سے لیکر وزیر اعظم کی کرسی تک یہی بورژوا طبقے کے لوگوں کاراج رہا۔ وہ آج بھی عام بلوچوں کو ایک دوسرے کے خلاف ورغلا کر انہیں زات پات، میں بانٹ کر آپس میں لڑاتے جھگڑاتے ہیں۔

بڑے بڑے وڈیروں اور سرداروں کو پارلیمنٹری کاموں تک محدود کر نے لگے ،تاکہ بلوچ قوم اپنی غلامی کو بھول کر باقی قوتوں کے لیے قربان ہو جائے۔

تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ قوم نے کبھی بھی غلامی کو قبول نہیں کیا، نہ کبھی کرسکتا ہے وجہ یہ ہے کہ اس دھرتی ماں کے گود میں اکثر بہادر بیٹیوں اور بیٹوں نے جنم لی ہے۔ جو ہمیشہ مزاحمت کرتے آرہے ہیں۔انہیں وقت و حالات کا سامنا ہوا ہے، لیکن پھر بھی ہار نہیں مانتے۔ اسی طرح طلباء تنظیمیں سرگرم رہے ، اُن میں سے بی ایس او واحد تنظیم ہے جس نے لوگوں کو شعور دیا، قربانی کا درس دیا، قوم کا خدمت گار بنایا ، اور کیڈرز علم و دانش کی راہ پر چلتے رہے آج تک اپنی راہ پر برسرِپکار ہیں۔

بقول ایڈوکیٹ شاہ زیب” بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے اپنے وجود سے لیکر آج تک تسلسل کے ساتھ ایک طویل جدوجہد کے زریعے بلوچ سرزمین میں بہترین (کیڈر سازی) میں کلیدی لوگوں کا سیاسی گروہ پیدا کرنے میں ایک بنیادی کردار ادا کیا ہے، جسے نظر انداز کرنا بلوچستان کے تاریخی پس منظر کو نامکمل بیان کرنے کے مترادف ہوگا۔”

افسوس کی بات ہے، سامراجی طاقتوں نے بی ایس او کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کیا تاکہ بلوچ نوجوان علم و ادب ، فلسفہ اور نظریہ سے دور ہو جائیں۔ جیساکہ نوجوانوں کو احساس ہونے لگا تھا کہ بلوچ سماج غلام ہے انہیں لاپتہ ،خفیہ طاقتوں نے ہمیشہ کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ مزید بی ایس او بلوچ قوم کے نوجوانوں کو علم و دانش کی راہ پر گامزن کررہا تھا، اس مقدس ادارے سے بہت سے لیڈروں نے بھی جنم لیا جن میں سے کچھ آج تک زندانوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔

کچھ لیڈرز شہید ہوئے اور باقی ابھی بھی بلوچ قوم کے لیے گلاب پھول کی مانند ہیں لیکن گراؤنڈ میں ہمیشہ لیڈروں کا فقدان نظر آرہا ہے اور اسی وجہ سے قوم کے جوانوں کو مختلف طریقوں سے استعمال کرنے لگے ہیں ۔ اور حقیقی راستہ نہیں دکھاتے ہیں، ہر نوجوان مایوس ؤ خلفشاری کے عالم میں گھوم پھر کر پھر خاموشی سے یا خودکشی کرتا ہے یا تو پھر باقی لوگوں کی طرح غلام کی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے۔

اب بلوچ سماج میں یہ تنظیم ایک نئی امید بن کر ہماری زندگیوں میں آئی ہے۔

اس تمام صورتحال کے پیش نظر ہم نے سمجھا کہ قومی لیڈر کی کمی ہے جو آنے والے زمانے میں بلوچ قوم کے لیے لیڈر بناکر بارش کے اولین قطرے ثابت ہونگے اور اپنی فکر و عمل کے ساتھ ساتھ بلوچ کو ایک منظم طریقے سے غلامی کی زنجیروں کو توڑنا سکھائینگے ۔

بلوچ سرزمین کئی سو سال سے نوآبادیاتی اور سامراجی تسلط کے زیر اثر ہے، انگریز کے بعد کی خفیہ قوتوں نے بھی اپنی جبر و استحصال کے ساتھ بلوچ قوم کو پیچھے دکھیلنا شروع کیا۔

تین بلوچ لیڈرز
بلوچ قومی تحریک میں تین لیڈرز ایک باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بابا خیر بخش مری ، نواب اکبر بگٹی ، اور عطاء اللہ مینگل کے نقش قدم پر بلوچ قومی مزاحمت چلی آرہی ہے۔ ان تینوں نے بلوچ قوم پرستی کے نظریے کو عملی شکل میں سامنے لایا، اور بلوچ نوجوانوں کو علم و دانش ، ادب و ثقافت اور تاریخ و مطالعہ کے ساتھ منسلک کرکےبلوچ قوم کے لیے تنظیم سازی اور بلوچ قومی مسئلہ کو بین الاقوامی سطح تک متعارف کروایا، تاکہ نوآبادیاتی طاقتوں کو اپنی پالیسیوں کے بنیاد پر کوئی کامیابی حاصل نہ ہو۔

وقت و حالات کے ساتھ ان عظیم شخصیتوں نے بھی ہمیں چھوڑ کر بلوچ قومی مسئلہ کو دنیا تک پہنچانے کے درس دیئے تھے ۔ آج بلوچ قومی تحریک اور بلوچ قوم سردار عطاء اللہ مینگل ، نواب اکبر بگٹی اور خیر بخش جیسی قیادت کی امید ہے، جہاں بلوچ نوجوان نواب خیر بخش مری جیسی عظیم شخصیت کے مختلف انٹرویوز اور تقریروں کو سنتے اور پڑھتے ہیں تاکہ ان کے ضمیر جاگ کر قومی مسئلے کو بیان کرنے کا ہمت حاصل کریں۔

بقول ہونک بلوچ ” ان حالات میں تحریک کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ایسی سیاسی جماعت ہو جس میں اتحاد اور مرکزی جمہوریت ہو اور اپنے سیاسی عمل سے قومی تحریک کی رہنمائی کرسکتا ہو ، مزید یہ کہ باصلاحیت ہو ، پارٹی میں اتحاد و مرکزیت پیدا کرنے کے لیے سیاسی کارکنان کی تعلیم و تربیت ترجیحی بنیاد پر کی جائیں تاکہ سیاسی کارکنان کو سستی، تنگ نظری اور جہالت سے دور دکھا جاسکے۔”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں