مشکے کی بیٹی دردانہ بلوچ
تحریر: عنایت اللہ رگام
دی بلوچستان پوسٹ
انسان کے اندر کچھ کرکے دیکھانے کا جوش و جذبہ ہو، اس کو آگے بڑھنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکتی ہے، ہمارے معاشرے میں خواتین کو علم کے میدان میں آگے بڑھنے کیلئے تعلیمی اداروں کا نہ ہونا، غربت، روایت، یہ تینوں ان کے پاؤں کے زنجیر بنے ہوئے ہیں۔ ان کے ارادوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہیں، ان زنجیروں کو توڑنا، مضبوط دیواروں کو گرانا عام، کمزور خواتین کی بس کی بات نہیں۔
باہمت خواتین ان زنجیروں کو توڑ کر، مضبوط دیواروں کو گرا کر اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں، نہ سردی دیکھتے ہیں، نہ گرمی، سردی، گرمی نہ دیکھنے والوں نے اپنے صلاحیتوں کا لوہا منوا کر اپنے لیے معاشرے میں ایک خاص مقام بنائے ہوئے ہیں، آج لوگ ان پر فخر کرتے ہیں، ایسے لوگ دوسروں کیلئے مثال بنتے ہیں، ہاں کامیاب انسانوں کی کامیابی کے پیچھے ان کے والدین کا ہاتھ کارفرما ہوتا ہے۔
ان کامیاب انسانوں کی تعداد ایک، دو نہیں ہزاروں، لاکھوں ہے، ہمارے ہاں ایسے لوگ نہیں، اگر ہیں بھی تو ان کو سیدھے، الٹے گننے کے بعد ان کی تعداد ایک سے شروع، دو تک ختم۔ غیروں کی مثال دینے کے بجائے، اپنے معاشرے میں ان کی مثال دیں، جو کرکے دکھاتے ہیں۔
وہ عظیم ہستی کون ہے، وہ عظیم ہستی مشکے، آواران، جاہو میں سب سے پہلے اپنے بچیوں کو بوائزاسکول میں پڑھایا، ہمارے معاشرے میں اپنے بچوں کو پڑھانا عیب سمجھا جاتا، غریبوں کی بات کر رہا ہوں، امیروں کی نہیں، وہ عظیم ہستی محترم استاد جناب محمد انور شاہوانی ہے، مشکے میں گرلز سکول نہ ہونے سے ہائی اسکول مشکے میں پڑھایا، ان میں سے ایک ڈاکٹر سعیدہ جہلاوان میں پہلا ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن گیا، ان کی بڑی بیٹی سکول ٹیچر ہے، ان بچیوں کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دوسروں نے اپنے بچیوں کو تعلیم دلوائی، آج بلوچستان کے جامعات بلوچستان یونیورسٹی، انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار، دوسرے انٹر، ڈگری کالج میں بطور پروفیسر، لیکچرار اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، محکمہ صحت، محکمہ تعلیم، محکمہ بی اینڈ آر، اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں پہلا پی ایچ ڈی کرنے والی خاتون شازیہ بلوچ کا تعلق مشکے سے ہے، مشکے سے تعلق رکھنے والے اور بچیاں بلوچستان اور بلوچستان سے باہر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔
محترم انور صاحب نہ ہوتا، یا اپنے بچیوں کو تعلیم نہ دلواتا، مشکے میں اپنے بچیوں کو پڑھوانا نہ ہونے کے برابر ہوتا، انہی کی جدوجہد کا تسلسل ہے کہ بچیاں پڑھ رہے ہیں۔
ان میں سے ایک تحصیل مشکے کے گاؤں گورجک سے تعلق رکھنے والے لیاقت علی بلوچ اپنی بیٹی دردانہ بلوچ کو پڑھانا چاہتا ہے، دردانہ بلوچ پڑھنا چاہتی ہے، باپ اور بیٹی کے درمیان ایک مقابلہ ہے، ایک اپنی بیٹی کو اعلیٰ مقام پر دیکھنا چاہتا ہے، بیٹی اپنے والد کے خواہشات پر پورا اترنا چاہتی ہے، دونوں پرعزم، دونوں کی کامیابی میں جیت ہے، ہار نہیں، کامیابی ہے، ناکامی نہیں، فلحال باپ، بیٹی کامیابی کی طرف رواں دواں ہیں، کامیابی کی پہلی منزل طے کر لیے گئے ہیں، ایک منزل اور آگے ہے، دردانہ بلوچ نے اپنے والدین کے توقعات پر ایک فیصد نہیں، 100 فیصد پورا اتر کر جامعہ کراچی سے Criminalogy ( جرمیات) میں ماسٹر کی ڈگری اچھے نمبروں سے حاصل کرلی ہے۔
دردانہ بلوچ کو جرمیات پر ماسٹر کی ڈگری لینے پر مبارکباد دیتا ہوں، یہ چار الفاظ بیٹی کی کامیابی پر اس لیے رقم کر رہا ہوں کہ خواتین کی ہر حال میں حوصلہ افزائی کرنی ہے، جو بھی پڑھ رہے ہیں، ان کا مقصد علم حاصل کرنا ہو، دل میں اردادہ کرلیں، میں پڑھ کر سب سے پہلے ایک اچھا انسان بنوں گا، اچھے انسان بننے والا ایک اچھا استاد، ایک اچھا لیڈر، ایک اچھا سائنسدان، ایک اچھا ڈاکٹر، وغیرہ بن سکتا ہے، اچھے انسان جب ایک ایک اچھا استاد، اچھا ڈاکٹر بن جاتا ہے، معاشرے میں ان کا ذکر ہوتا ہے، ان کی مثال دی جاتی ہے، دردانہ بلوچ کو مشورہ ہے، آپ نے ایک منزل عبور کی ہے، ایک اور منزل عبور کرنی ہے، ان کیلئے زیادہ سے زیادہ محنت کرنی ہے، جو بننا چاہتی ہو، اس کیلئے ابھی سے تیاری کرنا، کامیابی، محنتی انسانوں کی قدم چومتی ہے، ایک بار پھر آپ کو آپ کی کامیابی پر مبارک ہو، خاص طور پر آپ کے ابو لیاقت علی کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتا ہوں، بس اپنے علاقے، اپنے، صوبے، اپنے خاندان کا نام روشن کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں