بلوچ دھرتی کی بیٹی نورین بلوچ ۔ محمد خان داؤد

183

بلوچ دھرتی کی بیٹی نورین بلوچ

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اس کا ایک دل ٹہرا ہوا تھا اور ایک دل سفر میں تھا
اس کے ہاتھ کراچی کے نجی اسپتال میں کسی کی نبض تلاش رہے تھے اور ایک ہاتھ ان زخموں کو صاف کر رہے تھے جن میں پیپ بھر گئی تھی
اس کی آنکھیں اس رات بھی جا گ رہی تھیں اور ان آنکھوں کو آنے والے دن میں بھی جاگنا تھا
صرف پیر سفر نہیں کرتے، دل بھی سفر کرتے ہیں
جس دن اس کے پیر کسی مریض کے اسٹیچر پر رُکے ہوئے تھے تو اس کا دل سفر کر رہا تھا
اور دوسرے دن وہ دل ان پیروں کے ساتھ سفر میں تھا جس دل کے لیے بابا فرید نے کہا تھا کہ
”درداں دی ماری دلڑی!علیل اے“
ایک سیلاب تو بلوچستان میں آیا اور سب کچھ بہا لے گیا
پر ایک سیلاب اس دل پر بھی آتا ہے جو سب کچھ بہا کر نہیں لے جاتا پر دردوں پر سے دھول کو صاف کر دیتا ہے اور درد اور واضح ہو جاتے ہیں
ہم بس اس سیلاب سے واقف ہیں جو ندی نالوں، آبشاروں،دریاؤں میں باڑ آنے سے آجاتا ہے اور اونچی اونچی گھاٹیوں سے ہوتا جب میدانوں میں اترتا ہے تو سب سے پہلے ان کھیتوں،کچے گھروں اور کمزور رسی سے بندھے جانوروں کو بہا لے جاتا ہے جس میں کسی مسکین کی زندگی کی ڈور بندھی ہوتی ہے۔ پر ہم اس سیلاب سے قطعاً واقف نہیں جو دل پر اترتا ہے اور آنکھوؤں سے ہوتا ہوا سب کچھ بہا لے جاتا ہے۔ایسا ہی ایک سیلاب جب نورین کے دل پر بھی اترا جب بلوچستان ڈوب رہا تھا۔
ہم نے بلوچ دھرتی ڈوبتے دیکھی
ہم نے بلوچ بیٹی کا دل ڈوبتے نہیں دیکھا
ہم نے بلوچ گھاٹیوں، پہاڑوں اور میدانوں کو پانی میں گھرا دیکھا
ہم نے بلوچ بیٹی کی آنکھوں کو پانی میں گھرا نہیں دیکھا
جب بلوچ دھرتی پانی سے بھر گئی تھی، تب ان پہاڑوں سے بہت دورایک بلوچ بیٹی درد سے بھر گئی تھی
سیلاب میں بس گھر پانیوں میں نہیں ڈوبتے،روح بھی پانی میں ڈوب جا تے ہیں
نورین بلوچ کا روح سیلاب کی نظر ہوا ہے۔
وہ تنکا۔تنکا ہوکر بکھری ہے اور زرہ زرہ ہوکر پانی میں ڈوبی ہے۔
ہم یہ تو جانتے ہیں کہ دھرتی کا پانی میں ڈوبنا کیسا ہوتا ہے
پر ہم یہ بلکل بھی نہیں جانتے کہ دل کا پانی میں ڈوبنا کیسا ہوتا ہے؟!
جس دن ہم شہر میں اپنے بچوں کو تیار کر کے اسکول بھیج رہے تھے۔جب ایک بچہ اپنی ماں کی راہ تک رہا تھا کہ وہ آئے اسے تیار کرے اور اسکول بھیجے۔جس دن رات ہم مزے کی نیند سو رہے تھے۔نورین مریضوں کو دیکھنے کے بعد دل میں سفر کو پال رہی تھی۔اور جس صبح ہم اچھا سا ناشتا کھا کر آفیسوں کو جانے لگے تو نورین کو وہاں جانا تھا جہاں بس دھرتی،گھر،ہی نہیں ڈوبے تھے پر جہاں زندگی ہی ڈوب گئی تھی
ہم بس پرفیوم کی مہک سے واقف ہیں۔ہم نہیں جانتے کہ پرانے زخموں کی سلانڈ کیسی ہو تی ہے؟
جس دن ہم اپنے جسموں پر خوشبو مل رہے تھے۔اس دن نورین اپنے ہاتھوں سے بیلہ میں سیلاب متاثرین کے وہ زخم دھو رہی تھی جو زخم نہ تو حکومت وقت کو نظر آتے ہیں اور نہ سرداروں کو۔
نورین ایک لڑکی ہوکر اندر سے ماں ہے اور ماں ہی جان پا تی ہے دھرتی اور دھرتی پر بسنے والے بچوں کو درد!نورین بلوچ کا اکلوتا بیٹا جب ماں کی راہ تک رہا تھا کہ وہ آئے گی اور اس سے بہت ساری باتیں کرے گی جب نورین بیلہ میں بہت سے بچے گود میں لیے ان کے زخم صاف کر رہی تھی جو بچے اس معاشرے کی دھتکارے ہوئے ہیں۔وہ ان بچوں کے درمیاں بلکل ایسی ماں لگ رہی تھی جو برستی بارش میں بچوں کو اپنی چادر میں چھپا لے۔اور بچے برستی بارش میں کچھ بھیگ رہے ہوں اور کچھ بچ رہے ہوں اور اس بات پر بہت خوش ہوں کہ وہ جیسے بھی ہیں پر ماں کی گود میں ہیں
تو ماں نے اپنے بچوں کو گود میں لیا۔انہیں صاف کیا،ان سے پیار کیا اور انہیں محبت سے بہانوں میں بھر لیا۔نورین بلوچ!بلوچ دھرتی کی بیٹی ہے۔نورین بلوچ کوئی سستی سوشل ورکر نہیں کہ اپنے جو تے،ہاتھ،پیر جینز کیچڑ میں مل کر ان کی تصاویر لیکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دے اور بہت کچھ لکھے
نہیں!
وہ بلوچ دھرتی کی عظیم ہیرو ہے
جسے ہم نہیں جانتے پر وہ پہاڑ،ٹیلے اور وہ بچے ضرور جانتے ہیں
جن کے درمیاں بیٹھ کر اس نے ان زخمی بچوں کو گود لیا اور ہنسایا
دھرتی کے بچوں کو پیار کیا اور کہانیاں سنائیں
انہیں ہنسایا اور خود ان کے درمیاں بہت روئی
معصوم بچوں نے نورین کے آنسو صاف کیے
اور نورین نے ان کے پیتل جیسے جسم پر خوشبو والا پاؤڈر ملا
کل ماں اور بچوں کا محبت کا دن تھا
یہ وہ فراڈ دن نہیں تھا،جسے ہم جیسے ”مادر ڈے“کہتے ہیں
یہ وہ دن تھا جس کے لیے مادھو لال حسین نے کہا تھا کہ
”اکھیاں لائیاں کیوں جھڑیاں؟“
اور ہم کیا جانے کہ یہ”اکھیاں لائیاں کیوں جھڑیاں؟“
کیا ہے؟
اس لیے کیا ہم اپنی بیٹی نورین بلوچ کے لیے گیت نہ لکھیں
جس نے کل معصوم بچوں کو زندگی اور رنگوں سے روشناس کرایا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں