طالبان کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ ہم القاعدہ کے رہنماء ایمن الظواہری کو کابل میں امریکی ڈرون حملے میں مارنے کے امریکی دعوے کی تحقیقات کر رہے ہیں کیونکہ طالبان قیادت کو وہاں ان کی موجودگی کا علم نہیں تھا۔
خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق امریکا نے ایمن الظواہری کو ڈرون سے فائر کیے گئے میزائل سے اس وقت ہلاک کردیا جب وہ اتوار کے روز کابل میں اپنے ٹھکانے پر بالکونی میں کھڑے تھے، یہ تقریباً ایک دہائی قبل اسامہ بن لادن کے مارے جانے کے بعد عسکریت پسندوں کے لیے دوسرا سب سے بڑا دھچکا ہے۔
دوحہ میں اقوام متحدہ کے لیے طالبان کے نامزد نمائندے سہیل شاہین نے ایک پیغام میں صحافیوں کو بتایا کہ جو دعویٰ کیا جارہا ہے حکومت اور اعلیٰ قیادت کو اس بات کا علم نہیں تھا اور نہ ہی اس کا کوئی سراغ ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دعوے کی سچائی کے بارے میں جاننے کے لیے ابھی تحقیقات جاری ہیں اور تحقیقات کے نتائج عوامی سطح پر شیئر کیے جائیں گے۔
اتوار کے ڈرون حملے کے بارے میں طالبان رہنما بڑی حد تک خاموش رہے ہیں اور انہوں نے کابل میں ایمن الظواہری کی موجودگی یا موت کی تصدیق نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں: مصر سے سوڈان، افغانستان و پاکستان میں عسکری کارروائیوں کے ذمہ دار الظواہری کون ہیں؟
ایک سال قبل امریکی حمایت یافتہ حکومت کی شکست کے بعد طالبان کے ردعمل کے اہم اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
مصری ڈاکٹر ایمن الظواہری 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر حملوں میں ملوث تھے اور دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب افراد میں سے ایک تھے۔
کابل میں ان کی موت کے بعد یہ سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ کیا ایمن الظواہری کو طالبان نے پناہ دی جنہوں نے 2020 میں امریکی فوجی انخلا کے معاہدے کے ایک حصے کے طور پر امریکا کو یقین دلایا تھا کہ وہ دوسرے عسکریت پسند گروپوں کو پناہ نہیں دیں گے۔