حاجی ثناء اللہ شاھوانی کے بیٹوں کے قتل اور رضاء جہانگیر کی بیوہ پر قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہیں-بی این ایم

264

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا پاکستانی فوج کے براہ راست ماتحت ادارے ایف سی، پولیس کا کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) ، ریگولر پولیس ، بلوچستان لیویز اور ڈیتھ اسکواڈ بلوچستان میں تمام قوانین سے آزاد ہوکر پاکستانی فوج کی بلوچ نسل کشی، اجتماعی سزاء ، جبری گمشدگی اور حراستی قتل جیسی کارروائیوں میں شراکت داری کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا خاران میں حاجی ثناء اللہ شاھوانی کے گھر پر ایف سی کا حملہ ان کے دوبیٹوں کا قتل اور ایک کی جبری گمشدگی، شال میں بی ایس او آزاد کے شہید رہنماء رضاء جہانگیر کی بیوہ پر قاتلانہ حملہ اور سنی خضدار میں لیویز اہلکار کا ایک خاتون کو سرعام بالوں سے پکڑ کر گھسیٹنا ریاستی اداروں کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں کی نمایاں مثال ہیں۔بلوچستان پر اپنے قبضے کو طول دینے کے لیے پاکستانی فوج منظم طریقے سے پولیس سمیت تمام اداروں کو اپنے بلوچ دشمن منصوبے کی تکمیل کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’ 14 اگست 2013 کی صبح بی این ایم کیچ کے رہنماء شہید امداد بجیر کے گھر پر پاکستانی فوج نے دھاوا بول کر انھیں اور ان کے مہمان بی ایس او آزاد کے سیکریٹری جنرل رضاء جہانگیر کو شہید کیا ۔رضاء جہانگیر کی شہادت کے ایک سال بعد 28 اگست 2014 کو آواران میں واقع ایک عبادت گاہ پر پاکستانی فوج کے دہشت گردوں نے حملہ کرکے ان کے والد بختیار بلوچ کو قتل کیا، اس حملے میں دیگر 6 عبادت گزار بھی قتل کیے گئے۔اور اب دوبارہ اگست ہی کا مہینے کا انتخاب کرکے پاکستانی فوج کے ایجنٹس نے شال میں بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے شہید رضاجہانگیر کی بیوہ ’زھرہ بلوچ‘ پر قاتلانہ حملہ کیا ہے جس میں وہ زخمی ہوئی ہیں۔پاکستانی فوج نے تسلسل کے ساتھ اس خاندان کو نشانہ بناکر اپنے آبائی علاقے سے ہجرت پر مجبور کیا۔خاندان کے مرد پاکستانی فوج نے قتل کیے اور اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ شہید رضاجہانگیر کی بیوہ پر بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا ہے۔یہ پاکستانی فوج کی سفاکیت کی انتہا ہے جس پر عالمی برادری کو اپنی خاموشی توڑتے ہوئے فوری کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘

ترجمان نے کہا خاران میں حاجی ثناء اللہ شاھوانی کا خاندان بھی ریاست پاکستان کی سفاکیت کا شکار ہے۔ جنگل روڈ پر واقع ان کے گھر پر 2 اگست 2022 کی رات کو 2 سے 3 بجے کے درمیان ایف سی اور پاکستانی فوج نے حملہ کیا۔حاجی ثناء اللہ کے مطابق ایف سی اور پاکستانی فوج کے اہلکاروں نے خواتین اور بچوں سمیت گھر میں موجود تمام افراد پر تشدد کیا۔تشدد کے دوران حاجی ثناء اللہ کے بیٹوں عامر اور عمران شاھوانی کو گولیاں ماری گئیں اور ان کے تیسرے بیٹے عرفان شاھوانی کو لاتوں اور بندوق کے بٹ مارکر تشدد کیا گیا اور تینوں بیٹوں کو جن میں دو انتہائی تشویشناک حالت میں زخمی تھے اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔دونوں بھائی عامر اور عمران ایف سی اور پاکستانی فوج سے منسلک خفیہ اداروں کی تحویل میں شہید ہوگئے جن کی میتیں مذکورہ پاکستانی فورسز نے شال کے سول ہسپتال میں پھینک دیں جبکہ حاجی ثناء اللہ کا تیسرا بیٹا عرفان شاھوانی تاحال پاکستانی فوج کی تحویل میں جبری لاپتہ ہیں۔

بی این ایم کے ترجمان نے مزید کہا حاجی ثناء اللہ کے خاندان کو پاکستانی فوج نے انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے مکمل طور پر تباہ کردیا ہے، ایک مہینے قبل ان کے ایک بیٹے اشفاق شاھوانی کو بھی ریاستی عناصر نے ان کے گھر میں گھس کر قتل کیا تھا اور اب ان کے تین بیٹوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں دو کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا جبکہ ایک کو گرفتاری کے بعد جبری گمشدہ کیا گیا ہے۔یہ ریاست پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں انسانیت کے خلاف ایسے جرائم ہیں کہ جنھیں کسی بھی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچ عوام کو متحد ہوکر اپنے سماج اور قومی بقا کے تحفظ کے لیے بلوچ قومی تحریک کو طاقت بخشنا ہوگا بلوچستان کی آزادی کے بغیر ہم ان مظالم سے چھٹکارہ نہیں پاسکتے۔

بی

آخر میں ترجمان نے خضدار کے علاقے سنی میں’اسد اللہ ‘ نامی لیویز اہلکار کی سوشل میڈیا پر وائرل تصویر پر جس میں وہ ایک خاتون کو بالوں سے گھسیٹ رہا ہے کہا کہ بلوچ پولیس بالخصوص لیویز اہلکاروں سے بلوچ عوام کو بہتر رویے کی توقع ہے کہ بلوچ اکثریتی ادارے ہونے کی وجہ سے یہ ادارے سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے اور بلوچ مخالف سرگرمیوں میں شامل ہونے سے گریز کریں گے لیکن گذشتہ کچھ سالوں میں پے درپے ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ بلوچ قوم کا مقامی فورسز لیویز اور پولیس سے بھی اعتبار اٹھ چکا ہے۔قوم کی اکثریتی رائے ہے کہ اب یہ ادارے پاکستانی فوج کے کاسہ لیس بن چکے ہیں۔اسداللہ نامی اہلکار کی مذکورہ حرکت انسانی وقار کے منافی ہے جس کی بلوچ قوم ہرگز اجازت نہیں دے گی۔ہم پولیس اور لیویز کے بلوچ افسران کو گوش گزار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اداروں اور اپنے اہلکاروں کی اصلاح کریں۔اس سے قبل کہ بلوچ قوم انھیں بھی دشمن شمار کرکے ان کا محاسبہ کرے،انھیں اپنے کردار کو درست کرنا ہوگا ۔دشمن چاہتا ہے کہ بلوچوں کو ہی بلوچوں کے خلاف کھڑا کیا جائے لیکن ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ ہمارے قومی مفاد کے خلاف ہے اور بلوچ قوم اس کا متحمل نہیں۔