نئی نو آبادیات
تحریر: افروز رند
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ کالونیلزم کا عہد ختم ہوچکاہے
ان کا کہنا ہے کہ دوسرے جنگ عظیم کے بعد دنیا DeColoniz ہوئی اور یہ مابعد کالونیت کا دور ہے یعنی Colony_Post کا دور ہے اس کی منطق سرد جنگ، اور سویت یونین کے Collapse کا پیش کرتے ہیں، جب پوری دنیا میں کئی قومیں اور 15 ممالک سویت یونین کے ساتھ ملے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود یہ سسٹم چلا نہیں اور آگے جاکر Unsustainable ہوگیا۔ جب 1985میں گورباچوف برسر اقتدار آئے،اس وقت افغانستان میں سویت یونین نام نہاد انقلاب کو بچانے کیلئے جنگ کررہاتھا، جب کہ سوشلسٹ سسٹم تیزی کے ساتھ Decline ہورہی تھی لحاظہ گورباچوف کو یہ اندازہ ہوچکاتھا کہ ہم ایک ایسے بوٹ پر سفر کررہے، جو بہت جلد ہم سب کو لے ڈوبے گی، نہ صرف وہ افغانستان سے نکل گئے بلکہ اس نے ایک بڑی جوا لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے [glasnost ][Perestroika پالیسیوں کا اعلان کیا سویت یونین میں پہلی مرتبہ اظہار رائے کی آزادی، سیاسی تحریکوں اور کاروبار کی اجازت دی گئی لیکن سویت یونین کا معاشرہ یہ پریشر برداشت نہ کرسکا اور اپنے انجام کو پہنچا گوکہ اس میں اور عوامل بھی شامل تھے، جیسے اسلحے کا دوڈ ،افغان جنگ، تیسری شاید سب سے اہم George F. Kennan. ،Henry Kissinger۔ کا وہ پالیسی جسے ہم containment کے نام سے جانتے ہیں ،آگے کسی اور آرٹیکل میں اس کا تفصیلی ذکر کرونگا۔
چلو آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا تھا کہ کچھ اسکالر یہ کہتے ہیں کہ سامراجیت ختم ہوچکی ہے لیکن کچھ اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ طریقہ کار تبدیل ہوچکاہے،اور کالونیوں میں لوٹ کھسوٹ اور کمزور ممالک اور قوموں کو زیر کرنے کیلئے اب جو چال بچھایا جارہاہے اسے مختلف معاہدوں اور باہمی یا دو ریاستی یا کثیر ریاستی ڈپلومیسی کی نقطہ نظر کیا جاتاہے۔ اسے ہم [نیو کالونیل ایئرا کہہ سکتے ہیں ] جیسا کہ پاکستان کو اندازہ تھا کہ وہ آنے والے وقتوں میں بلوچستان کی جنگ کاFiscal پریشر برداشت نہیں کرسکتا، اسلئے اس نے چین کے لیڈروں کو راضی کرکے بلوچستان کی جنگ میں انہیں ملوث کردیا کیونکہ چائنا ایک نئی ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔ [نیو کالونیت کا سوچ رکھنے والا ملک ہے] جوکہ دنیا پر عملا حکمرانی کا خواب دیکھ رہاہے، اس کو پورا کرنے کیلئے شی چنگ پنگ ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں’ اور اسے بحر بلوچ اور بلوچ ساحلی بلٹ کی قیمت اور اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے اور یہ اس وقت دنیا کے اہم Geopolitics. Geostrategic’ Geoeconomics ,Oceanography خطوں میں شمار ہوتے ہیں جسے ہم Attractive زون کہہ سکتے ہیں چاہے وہ معاشی یا سیکورٹی کی نقطہ نظر سے ہو۔
اس معاہدے سے چین کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں، جب پاکستان کا فل الحال مسئلہ سیکورٹی اور معاشیات ہے جس کی وجہ سے پاکستان چاہتا ہے کہ بیرونی سرمایہ آئے اور اس کے ڈوبتی معیشت کو سہارا ملے، جب کہ چین کیلئے یہ روٹ اسلئے اہم ہے کہ چین مستقبل میں ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے، اور وہ دنیا کے کئی خطوں میں اپنے سافٹ پاور کو پورٹ روڈ اور انفراسٹرکچر کے ذریعے پھیلا رہاہے، چائنا نے 1990 سے لیکر 2016تک چائنا میں 26 لاکھ سے زائد روڈ اور کوریڈور بنائے ہیں اور چائنا دنیا کی تیز ترین ریلوے بناچکاہے جوکہ 350 Mph پر چلتاہے، چائنا اس وقت دنیا کے Developing country کو بخوبی اپنے قرضوں میں پھنسا کر مستقبل میں ان کے ریاستی اساسوں کو ضبط کرکے اپنی معاشی پلان نافذ کرے گا۔ جس طرح گوروں کے کمپنیوں نے کیا تھا البتہ چائنی کالونیت غیر محسوس انداز میں آگے بڑھ رہاہے، جس طرح کہ چائنا نے سری لنکا سے قرضہ کی قسط نہ ملنے پر ان کے پورٹ 90 سال کیلئے اپنے پاس رکھے یہ وہی طریقہ ہے جب اگست 1842 میں برطانیہ نے Treaty of Nanjing کرکے چائنا کو رسوا کیا اور اس کے پانچ پورٹ بہ نام معاہدہ ضبط کئے اگر کسی چیز میں فرق ہے وہ صرف طریقہ کار میں ہے۔
چائنا نہ صرف سری لنکا اور بلوچستان کے پورٹ حاصل کرچکا ہے بلکہ اس وقت برما کی totalitarianism فوجی سرکار کو آکسیجن فراہم کررہا ہے جوکہ نہ صرف وہ جمہوریت پسندوں اور سیاسی ورکروں کو قتل کررہی ہے بلکہ اقتدار پر شب خون مارکر اس پر قابض ہوچکی ہے’ دوسری طرف چائنا یہ قرض والا فیتہ بنگلہ دیش کے ساتھ بھی باندھ رہاہے ،جب یہ ریاستیں کمزور ہونگی اور قرضہ پیمنٹ نہیں کرسکیں گی تب چائنا اپنا شاشو ژیان والا ہتھیار استعمال کرے گا ،یعنی قتل بھی کرو مقتول کو پتہ بھی نہ چلے،اس سلسلے میں ایک کتاب کو پڑھنے کا مشورہ Unrestricted Warfareدونگی ]
پاکستان ایک معاہدہ کے ذریعے گوادر کو چائنی اینوسمنٹ اور CPEC Authorities کے حوالے کرچکاہے ،بلکہ بلوچستان کے تمام شاہراہوں کو 2بلیں 5 ملیں ڈالر کیلئے گروی رکھ چکاہے۔
جب کہ چائنا کی انوسمنٹ اور انفراسٹرکچر کیلئے سب سے زیادہ زور افریقہ کے ان ممالک پر ہیں جہاں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے اور معدنیات کی وسائل بے تحاشہ موجود ہیں’2008 سے چائنا نے دنیا کے کسی ممالک بشمول امریکہ کے مقابلے میں کئی گنا ذیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔
چائناM. 470 سے زائد Electrified ریلوے ٹریک بناچکاہے تاکہ Ethopia کو Djibouti سے ملایا جائے جہاں Xinjiang نے2015 میں دورہ کیاتھا اور 60B$ کی پروجیکٹ کا اعلان کیاتھا’ اور Djibouti میں چائنا کا فوجی بیس بھی ہے جوکہ اپنا لوکل اسلحہ بھی بخوبی بھیج رہاہے بلکہ اسلحہ کا کاروبارہ بخوبی کررہاہے افریقہ کے غریب ممالک کو پیسہ چاہیے کیونکہ وہ ترقی میں کافی پیچھے ہیں جب کہ چائنا کو معدنیات چاہیے اور عملا مستقبل میں افریقہ کے ممالک اگر ترقی کرتے ہیں تو چائینیز کے اثر ونفوذ میں ہونگے یہی حال کچھ سنٹرل ایشیا کے ممالک کا ہے اور ایران نے پاکستان سے بھی بڑا معاہدہ چائنا کے ساتھ دستخط کئے ہیں جس کی مالیت 400B$ہے اور یہ بہت بڑی پروجکٹ گوکہ اس کا بھی مرکز سیستان بلوچستان ہی ہے۔
جس طرح پاکستان بلوچوں کی قتل عام کررہی ہے اس کے ساتھ یہی نئی نوآبادیاتی سرمایہ دار شامل ہیں ورنہ پاکستان کب کا اپنا بستر گول کرچکا ہوتا الغرض حرف آخر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ گزشتہ 15 سالوں سے ہم یہ انڈیا اور ہمسایہ ممالک کی مدد و اپیل جیسے جملوں اور ویڈیوز سے بیزار ہوچکے ہیں، اگر آپ لوگ کرسکتے ہیں Diplomacy اور Lobby کریں شلٹر ڈپلومیسی چینل استعمال کریں مدد مانگیں یا جو کچھ کرسکتے ہیں کریں برائے کرم اپنے جنگ کو کسی کا پراکسی پروجکٹ بننے سے بچائے رکھیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں