کوئٹہ میں زیارت واقعہ کے خلاف دھرنے پر موجود مظاہرین نے حکومت کو مطالبات ماننے کے لئے منگل تک کا وقت دے دیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ منگل تک مطالبات پورے نہیں ہوئے تو بلوچستان بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگا-
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام لاپتہ افراد کے لواحقین گذشتہ تین روز سے بلوچستان گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دئے ہوئے ہیں-
دھرنے سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے مظاہرین کا کہنا تھا کہ رواں ماہ 14 اور 15 جولائی کے درمیان زیارت کے مقام پر سیکورٹی فورسز کی جانب سے مقابلے کا دعویٰ کرتے ہوئے 9 افرادکو مارنے کا اعلامیہ جاری کیا گیا جب مارے گئے افراد کی لاشیں سول ہسپتال لائی گئیں اور ان کے تصویر وائرل ہوئے تو آہستہ آہستہ لاپتہ افراد کے خاندانوں کو علم ہوا کہ اس آپریشن میں جن افراد کی لاشیں ملی ہیں یہ پہلے سے ریاستی اداروں کے زیر حراست تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب لا پتہ افراد کے خاندانوں نے اپنے اپنے پیاروں کی تلاش شروع کی تو پہلے مرحلے میں 5 افراد کی شناخت ہوئی جن میں انجینئر ظہیر بلوچ ، ڈاکٹر مختیار بلوچ ،شهراد بلوچ شمس ساتکزئی اور سالم کریم شامل تھے ان کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی شناخت کرتے ہوۓ ان کی جبری گمشدگی کے ثبوت پیش کیے ان میں سے ظہیر اور شہزاد کے لواحقین گذشتہ کئی مہینوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کر رہے تھے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ جبکہ اس کے بعد مزید دو افراد کی شناخت جمعہ خان مری اور شاہ بخش مری کے ناموں سے ہوئی ہے جنہیں مختلف اوقات میں جبری طور پر اٹھایا گیا تھا جس سے یہ بات عیاں ہوئی کہ زیارت کے مقام پر ایک جعلی مقابلے کا دعویٰ کرتے ہوئے لاپتہ افرادکو مار کران کی لاشیں پھینکی گئی ہیں اس واقعے سے ہزاروں لاپتہ افراد کے خاندان اس اذیت میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ کہیں ان کے پیاروں کو بھی ایسے شہید نہ کیا جائے ۔
میڈیا کو بریفنگ دیتے لواحقین کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لاپتہ افراد سیکورٹی فورسز کے زیر حراست ہیں اور ان کی زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق ہے-
مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل متعدد دفعہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جعلی مقابلے میں لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی گئی ہیں اس حالیہ غیر قانونی، غیر آئینی اور انسانیت سوز واقعے کے خلاف بلوچ سیاسی جماعتوں اور لاپتہ افراد کے لواحقین نے احتجاجی دھرنا دینے کا فیصلہ کیا تھا جسے روکنے کیلئے پولیس کی جانب سے شدید جبر وتشد د کا استعمال کیا گیا مگر ان مظالم کے باوجود یہ دھرنا وزیراعلیٰ اور گورنر ہاؤس کے سامنے جاری ہے ۔
گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنے پر بیٹھے مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہمارے 3 بنیادی مطالبات ہیں جن میں زیارت واقعے پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل، تمام لا پتہ افراد کی باحفاظت رہائی اور لاپتہ افراد کو اس بات کی یقین دہانی کہ پھر دوبارہ بھی کسی بھی زیر حراست شخص کو جعلی مقابلوں میں نشانہ نہیں بنایا جائے گا شامل ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ اب تک بلوچ عوام کی جانب سے شدید احتجاج کے باوجود زیارت میں انسانیت سوز واقعے پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے جبکہ وزیر داخلہ ضیاء لانگو کے اس پر یس کا نفرنس کی شدید الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے جن میں وہ لا پتہ افراد کو دہشتگرد قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ گذشتہ 3 دنوں سے گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاج جاری ہے اور اب تک کسی بھی حکومتی وفد نے سنجیدہ مذاکرات کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ پریس کا نفرنس کی توسط سے بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اس ظلم اور جبر کے خلاف بلوچستان بھر میں اظہار ہمدردی کیلئے احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کریں-
مظاہرہ زیارت میں قتل کئے افراد کے اہلخانہ لاپتہ افراد کے لواحقین، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، نینشل ڈیموکریٹک پارٹی، بی ایس او کی جانب سے کیا جارہا ہے جبکہ دھرنے کی قیادت ماما قدیر بلوچ و نصر اللہ بلوچ کررہے ہیں-
مظاہرین نے مزید کہا کہ حکومت کو منگل تک کا وقت دیتے ہیں اگر انہوں نے دھرنے کے جائز مطالبات تسلیم نہیں کیے اوراپنی ہٹ دھرمی جاری رکھی تو منگل سے بلوچستان بھر میں احتجاجی سلسلوں کا آغاز کیا جاۓ گا اور حالات کی خرابی کی تمام ذمہ داریاں سیکورٹی اداروں اور حکومت بلوچستان پر عائد ہونگے۔