جعلی ریاست، جعلی مقابلے ۔ حکیم بلوچ

394

جعلی ریاست، جعلی مقابلے

تحریر: حکیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

چودہ جولائی دوہزار بائیس کو پاکستانی فوج نے بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں کیخلاف آپریشن میں دو مزاحمت کاروں کو مارنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے پاکستانی فوج کے حاضر سروس کرنل لئیق مرزا بیگ کے اغواکاروں کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے دو اغواکاروں کو دوران مقابلہ مار گرایا ہے۔

پاکستانی فوج نے پندرہ جولائی کو مزید پانچ افراد کو بی ایل اَے کا مزاحمت کار پیش کرتے ہوئے انہیں دوران مقابلہ مارنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دوران آپریشن مزید پانچ مزاحمت کاروں کو مارا گیا ہے جبکہ ایک پاکستانی فوج کے ایک اہلکار کے ہلاک ہونے کی تصدیق بھی کی تھی۔

پاکستانی فوج نے زیارت اور گردونواح میں آپریشن کا آغاز اس وقت شروع کیا تھا جب بلوچ لبریشن آرمی کے مزاحمت کاروں نے بارہ اور تیرہ جولائی کی درمیانی شب پاکستانی فوج کے حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل لئیق مرزاء بیگ اور انکے رشتہ دار عمر جاوید کو زیارت سے اغواء کیا تھا، کرنل لئیق کی اغواء کے بعد سے پاکستانی فوج نے آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے ان آپریشنز میں نو مزاحمت کاروں کو کرنل لئیق کی اغواہ میں ملوث قرار دیکر ان افراد کے قتل کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔

دوسری جانب بی ایل اے کے ہاتھوں مغوی کرنل لئیق مرزا کی لاش منگی ڈیم کے قریب سے ملی تھی۔ بی ایل اے نے کرنل لئیق مرزا کو ہلاک کرنے کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ “کرنل لئیق کو بلوچستان پر قابض فوج کا ایک افسر ہونے، معصوم بلوچ خواتین و بچوں کی جبری گمشدگیوں، بلوچ نسل کشی اور دیگر جرائم سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں براہ راست ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں بلوچ قومی عدالت میں پیش کیا گیا اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا پورا موقع دیا گیا۔ جہاں انہوں نے اپنے تمام جرائم کا اعتراف کیا، جسکی پاداش میں انہیں بلوچ قومی عدالت سے سزائے موت سنائی گئی۔ جسکے فوری بعد سزا پر عملدرآمد کیا گیا۔”

بلوچ لبریشن آرمی نے پاکستانی فوج کے اس بیان کو بھی جھوٹ کا پلندہ قرار دیا تھا جس میں پاکستانی فوج کی جانب سے کہا گیا تھا کہ بی ایل اے کے مزاحمت کار دوران مقابلہ مارے گئے تھے۔ بی ایل اے کے ترجمان جئیند بلوچ کے مطابق ”ہرنائی اور زیارت کے علاقوں میں نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں کو شہید کرنے کا پاکستانی دعویٰ محض فوج کا ایک پروپگنڈہ حربہ ہے، جسکامقصد بلوچستان میں اپنی ناکامیوں اور شکست کو چھپانا ہے۔“

جئیند بلوچ کے مطابق ”زیارت میں اپنا مخصوص آپریشن مکمل کرکے بی ایل اے کی اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ ( ایس ٹی او ایس) کےتمام سرمچار ساتھی آسانی کے ساتھ مذکورہ علاقے سے نکل کر اپنے محفوظ ٹھکانوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اس پورےآپریشن میں ہمارا ایک بھی ساتھ زخمی تک نہیں ہوا۔“

پاکستانی فوج نو لوگوں کو دوران آپریشن مارنے کا دعویٰ کرتی ہے اور بی ایل اے فوج کے دعووں کو یکسر مسترد کرتی ہے تو آخر یہ لوگ تھے کون ؟

اٹھارہ جولائی دوہزار بائیس کو پاکستانی فوج کا یہ بیانیہ کے بی ایل اے کے نو مزاحمت کار دوران مقابلہ مارے گئے ہیں، واقعتاً جھوٹ کا پلندہ اس وقت ثابت ہوا جب ان مارے جانے والے نو افراد میں سے ایک شخص کی شناخت پہلے سے ہی جبری طور پر لاپتہ شمس ساتکزئی کے نام سے ہوئی، شمس ساتکزئی گزشتہ پانچ سالوں سے پاکستانی فورسز کی تحویل میں تھی۔

شمس ساتکزئی کی شناخت انکے لواحقین نے اس حقیقت کے ساتھ کی کہ شمس گزشتہ پانچ سالوں سے جبری گمشدگی کا شکار تھے وہ پاکستانی فورسسز کی تحویل میں تھے اور انہیں جعلی مقابلے میں شہید کیا گیا ہے۔

پاکستانی فورسز کے دعووں کے برعکس یکے بعد دیگر ان مارے جانے والے افراد کی شناخت ہونے لگی اور یہ راز بھی عیاں ہوتی گئی کہ مارے گئے افراد جبری گمشدگی کا شکار تھے۔

ان مارے جانے والے افراد میں جبری گمشدگی کا شکار انجینیر ظہیر بلوچ بھی شامل تھے، جن کی بازیابی کیلئے ان کا خاندان سراپا احتجاج تھا اور انکی بہن سوشل میڈیا پر اپنی بھائی کی بازیابی کیلئے آواز اٹھارہی تھی۔ لیکن اس بہن کو کیا خبر تھی کہ اسے اسی ٹوئیٹر ہینڈل سے اپنی بھائی کی شہادت کی تصدیق کرنی پڑیگی۔ انجینیئر ظہیر بلوچ کی بہن عظمی بلوچ اپنے ٹوئیٹ میں لکھتی ہیں ”میرے بھاٸی کو شہید کردیا گیا ہے”۔

عظمیٰ بلوچ نے ایک اور ٹوئیٹ میں اپنی ماورائے عدالت قتل کئے گئے بھائی کی تصویر شائع کرتے ہوئے کہتا ہے کہ “میرے بھاٸی شہید انجنیر ظہیر بلوچ کو ایسے بےدردی سے شہید کیا تم نے ۔۔وہ کیسا جنگ لڑ رہا تھا تمارےساتھ کے اس کے ہاتھوں پہ ہتھکڑیوں کے اور آنکھوں پہ پٹی کے نشان، پورے سراور چہرے پہ تمھارے تشدد کے نشان جسم پہ گولی دائیاں ہاتھ دو جگہوں سے ٹوٹاہوا ۔۔تم قاتل ہو۔”

پاکستانی فوج کے دعوووں کے برعکس دیگر مارے گئے افراد کی شناخت بھی پہلے سے لاپتہ افراد کے طور پر ہوئی جن میں سے شہزاد بلوچ کو رواں برس چار جون کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا تھا، شہزاد بلوچ کے بھائی اپنے بھائی کی بازیابی کیلیے قانونی طور پر احتجاج کرکے انکی بازیابی کو یقینی بنانا چاہتی تھی لیکن پاکستانی فوج نے انہیں بھائی تو لوٹا دیا لیکن ایک لاش کی صورت میں اور پھر اس لاش کو بھی حوالے کرنے سے انکار کرتے رہے، یہاں تک کہ اس بھائی کو دھمکایا گیا لیکن شہزاد آخرکار اپنے شہر میں اپنے لوگوں کے درمیان اپنی مٹی میں دفنایا گیا۔

اسی طرح دیگر تین افراد کی شناخت پہلے سے لاپتہ ڈاکٹر مختار بلوچ، سالم بلوچ اور قیصر چھلگری مری کے ناموں سے ہوئی ہے۔ ڈاکٹر مختار بلوچ جون دوہزار بائیس کو کوئٹہ سے جبری گمشدگی کا شکار بنائے گئے تھے، جبکہ سالم بلوچ پنجگور سے کوئٹہ آتے ہوئے دوران سفر جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے گئے تھے اور قیصر چھلگری مری کو رواں سال مارچ کے مہینے میں انکے آبائی علاقے میا کئور ہرنائی سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

جبکہ ساتویں لاش کی شناخت شاہ بخش مری کے نام سے ہوئی ہے۔

زیارت آپریشن کے بعد سے لیکر ابتک اس واقعے کے ردعمل میں بلوچ سیاسی کارکنان، سماجی کا رکن و انسانی حقوق کے علمبرداروں سمیت بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین پاکستانی فورسسز کی اس کاروائی کوانسانیت سوز اور عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف قرار دے رہی ہیں۔

جبکہ پاکستانی فورسسز نہ صرف ان پہلے سے جبری گمشدگی کے شکار افراد کے قتل عام کو دروغ گوئی کے ذریعے ایک مقابلہ قرار دینے کی کوشش کررہی ہیں، بلکہ پُرامن احتجاج کرتے بلوچ ماؤں، بہنوں، بزرگوں اور نوجوانوں پر آنسو گیس کی شیلنگ کرنے کے ساتھ ساتھ لاٹھی چارج بھی کررہے ہیں۔ اور پُرامن احتجاج کے تمام ذرائع بند کرکے بلوچوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔

پاکستانی ریاست گزشتہ سات دہائیوں سے بلوچستان میں ظلم و جبر کے تمام تر طریقے استعمال کرچکی ہے لیکن بلوچوں کی آواز کو دبانے انکے جدوجہد کو مکمل طور پر خاموش کرانے یا ختم کرنے میں یکسر ناکام ہوچکی ہے۔

بلوچستان میں جاری شورش کو ہمیشہ سے ہی مُٹھی بھر لوگوں کے نام سے جوڑنے یا تین سرداروں اور مخصوص علاقوں تک محدود کرنے کی پالیسی کی ناکامی کے بعد اب پاکستانی فوج کا بلوچستان میں اپنی آفیسرز کی حفاظت یقینی بنانا بھی ناممکن ہوچکا ہے۔ بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے حملوں کے نتیجے میں پاکستانی فوج پسپائی کا شکار ہوکر کبھی عام آبادیوں پر حملہ آور ہوکر لوگوں کو نشانہ بناتی ہے، تو کبھی پہلے سے جبری گمشدگی کا شکار لوگوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کرکے انہیں مزاحمت کار کے طور پر پیش کرتی ہے تاکہ وہ اپنی شکست کو چھپاسکیں، اور اپنے فوجی جوانوں کو جھوٹی تسلیاں دے سکیں کہ بلوچستان میں سب کچھ کنٹرول میں ہے اور انہیں وہاں پر دوران ڈیوٹی کسی بھی قسم کے کسی واقعے، حادثے یا حملے کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا، لیکن بلوچ مزاحمت کار ہمیشہ ہی اپنے حملوں میں پاکستانی فوج پر ایسے کاری ضرب لگاتے ہیں کہ فوج کا بیانیہ جھوٹ کے پلندہ کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔

دنیا کی تاریخ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا، کہ ظالم عام عوام پر ظلم کرکے انہیں دیوار سے لگاکر انکے ساحل وسائل و آزادی پر قبضہ جماکر یہ امید کرسکے کہ وہ مقبوضہ سرزمین پر آرام سے حکمرانی کرسکتا ہو یا اسے مزاحمت کا سامنا نہ ہو۔

آج بلوچ قومی جدوجہد نے ریاست پاکستان کو اس قدر مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے جرائم کو مزید چھپانے کی اہلیت نہیں رکھتا، پاکستانی ریاست کی سفاکیت، بربریت، ظلم و انسانیت سوز مظالم کے باوجود بلوچ قوم کا بولان کے پہاڑوں جیسے بلند حوصلوں قربانی سے سرشار فلسفہ اور قومی جدوجہد سے نظریاتی وابستگی پاکستانی ریاست کی شکست خوردگی کا ثبوت ہے۔

پاکستانی ریاست اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ نو لاش گراکر بلوچوں کو انکی تحریک، جدوجہد اور آزادی کے کاروان سے الگ کرسکتی ہے تو یقیناً پاکستانی ریاست حقیقت سے واقفیت نہیں رکھتا اور وہ یہ نہیں جانتا کہ بلوچ ہر ایک گرتے ہوئے لاش اور ٹپکتے ہوئے لہو کا بدلہ ضرور لینگے اور وہ بدلہ بلوچستان کی آزادی کی صورت میں ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں