سچائی چھپ نہیں سکتی
ماہ رنگ اعظم
دی بلوچستان پوسٹ
لوگوں سے سنا تھا کہ ریاستیں اپنے مفاد کے لئے کسی جھوٹ کو پروپیگنڈے کے ذریعے ایسے پھیلاتے ہیں کہ وہ جھوٹ سچ نظر آنے لگتا ہے لیکن آج دیکھ لیا کہ واقعی ریاستیں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بے گناہ لوگوں کو مجرم بنا کر پیش کرتی ہے تاکہ دنیا میں ان کی ساکھ متاثر نہ ہو.
یہ تو دنیا کی سیاست ہے جہاں جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن انسانی حقوق کی پامالیوں کو چھپانے کے لئے بھی جھوٹ کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن ان زمینی خداؤں کو شاید معلوم نہ ہو کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور جھوٹ لازم منظر عام پر آجاتا ہے.
میرے بھائی شعیب اعظم جس کو کراچی کے علاقے گلشن اقبال بشیر ولیج نزد الہ دین پارک سے 29 اپریل کو سی ٹی ڈی اور دیگر اداروں نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا. جس وقت انہوں نے گھر پہ چھاپہ مارا اس وقت میرے بھائی کے کمرے کے ساتھ ہی دیگر طالب علم بھی رہائش پذیر تھے لیکن انہوں نے سب کی جامع تلاشی کے بعد شعیب بلوچ کو اپنے ساتھ لے گئے.
کل رات کسی کزن نے انتخاب اور دیگر آن لائن اخبارات میں شائع ہونے والی سی ٹی ڈی کے ترجمان کے بیانات بھیجے تھے، جس کے مطابق انہوں نے کراچی یونیورسٹی واقعے کے اہم کردار کو کراچی کے علاقے سے گرفتار کیا ہے، جسے افغانستان سے تربیت دیکر کراچی حملے سے قبل کراچی بلایا گیا تھا. آج سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پریس کانفرنس کے ذریعے ماری پور ھاکسبے کراچی سے 4 جولائی کو داد بخش بلوچ عرف شعیب اور دیگر کئی عرفی ناموں کے ساتھ منظر عام پر لائے اور انہیں کراچی یونیورسٹی واقعے اور گلبائی میں چائینز انجنئیروں پر حملے کا ملزم قرار دیا.
اس پریس کانفرنس کے دوران یا کچھ دیر بعد کسی اکاؤنٹ سے میرے بھائی کی ایک تصویر بھی شئیر کی گئی جسے فوراً ڈیلیٹ کردیا گیا.
میں اس تحریر کی توسط سے آپ انسان دوستوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ میرا بھائی ایک طالب علم ہے جسے ہم نے کراچی پڑھائی کے سلسلے میں بھیجا تھا لیکن انہیں 29 اپریل کو جبری گمشدہ کیا گیا تھا اگر ہمارے علم میں ہوتا تو ہم ہر گز اپنے بھائی کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ کراچی جائیں یا دیگر شہر جا کر تعلیم حاصل کریں.
میں نہیں جانتی کہ ریاست اور سندھ حکومت کے اداروں نے کیوں میرے بھائی کو اس کیس میں ملوث کیا لیکن ان کی پریس کانفرنس خود ان کی ناکامی کا اعتراف کررہی ہے کہ وہ چین اور اپنے حکمرانوں کو خوش کرنے کے لئے ایک طالب علم کو ملزم بنا کر پیش کررہے ہیں.
کیا یہ ریاست جو ایٹمی طاقت کا حامل ہے اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ ایک بے گناہ طالب علم کو کراچی فدائی حملے سے جوڑ رہی ہے.
بلوچ طالب علموں کو جھوٹے الزامات کی بنیاد پر جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا اور پھر بعد میں انہیں مار کر اجتماعی قبروں میں دفنانا ریاستی پالیسیوں کا حصہ ہے جس میں ریاست کے عسکری اداروں سمیت تمام سول ادارے بھی ملوث ہیں.
مجھے تو دو مہینے کا عرصہ گزر چکا ہے، اس درد و تکلیف کو دیکھ رہی ہوں، جو اپنوں کے بچھڑنے پر محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن بلوچستان سے ہزاروں خاندان اس جبری گمشدگی کا شکار ہے. سمی کے تیرہ سال، ذاکرمجید کی ماں کا انتظار، سیما، فریدہ و سائرہ کی جدوجہد آپکے سامنے ہیں جنہیں ان اداروں نے لاپتہ کردیا ہے.
شعیب کا مجرم کی صورت میں سامنے آنا ہمارے لئے کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ اس سے قبل بھی قائداعظم یونیورسٹی فزکس کے طالب علم حفیظ بلوچ کو دہشت گرد ظاہر کیا گیا اور کچھ دن قبل عدم ثبوت کی بنیاد پر عدالت سے با عزت بری کردیا گیا. راشد حسین، حسنین اور دیگر متعدد کیسز موجود ہیں، جن میں انہیں دہشت گرد یا سہولت کار ظاہر کیا گیا. کچھ دن قبل ہی عارف نامی شخص جنہیں کراچی جیل میں تشدد کرکے مار دیا گیا اور آج میرے بھائی کی گرفتاری ھاکسبے سے ظاہر کی جو جھوٹ کا پلندہ ہے.
لیکن یہ حقیقت ہے کہ سچائی چھپ نہیں سکتی کتنے دنوں تک جھوٹ بول کر یہ ریاست اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کریگی اور کتنے دنوں تک بے گناہ افراد کو تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں مجرم ثابت کرنے کی کوشش کریگی. ایک نہ ایک دن سچ ضرور سامنے آئے گا اور ان ظالموں کو نیست و نابود کردے گا جو ماوں کو ان کے لخت جگر سے دور کرنے کے زمہ دار ہے.
میں چپ نہیں رہو نگی اور نہ ہی میری فیملی کے لوگ چپ رہیں گے بلکہ ہر وہ پلیٹ فارم استعمال کریں گے، جو ہمارے بھائی کی بازیابی کا باعث بنیں گی اور ہر وہ پلیٹ فارم جو ریاستی جھوٹ کو آشکار کریں گی استعمال کریں گے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں