عالمی مالیاتی اخبار نکی ایشیا کی جاری رپورٹ کے مطابق پاکستان چین کے لیے ایک اہم اسٹریٹجک مقام ہے اور بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے تحت فنڈز کا ایک بڑا حصہ دار بھی ہے، بیلٹ اینڈ روڈ چین کا سب سے بڑا بین الاقوامی انفراسٹرکچر پروگرام ہے لیکن چینی شہریوں پر حالیہ حملوں اور بدامنی و چین مخالف جذبات نے چینی حکومت کو پریشان کر دیا ہے۔
نکی ایشیاء نے دعویٰ کیا ہے کہ رواں ماہ کے شروعات میں چینی وزارت خارجہ نے پاکستان سے کہا کہ وہ ایک چینی سیکیورٹی کمپنی کو پاکستان کے اندر کام کرنے کی اجازت دے۔ رپورٹ کے مطابق اس بات کا اعتراف اخبار کو موجودہ حکومت کے دو وزراء کی جانب سے کی گئی ہے- ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نے اس درخواست کو مسترد کر دیا ہے، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ بیجنگ اس طرح کے انتظامات کے لئے پاکستان پر زور دیتا رہے گا۔
ایک مقامی نجی سیکیورٹی کمپنی کا ایک اہلکار جو چینی شہریوں کے ساتھ کام کرتا ہے، نے اخبار کو بتایا کہ بیجنگ اب اپنے شہریوں اور جاری پروجیکٹس کی حفاظت خود کرنے کی کوشش کررہا ہے کیونکہ گذشتہ سال داسو ڈیم کے مقام پر ایک بس پر بم حملے میں 10 چینی شہری مارے گئے تھے اور رواں سال کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ میں چینی شہریوں پر حملے نے چین حکومت کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان سے چینی سیکیورٹی کمپنیوں کو آپریشنز کی اجازت دینے کے لیے کہے-
یاد رہے چینی سیکیورٹی اہلکاروں کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دینے کی تجویز اس سے قبل بھی کئی دفاع بیجنگ کی جانب سے سامنے آچکی ہے۔
جرمن تحقیقاتی ادارے مرکٹر انسٹی ٹیوٹ فار چائنا اسٹڈیز کی طرف سے شائع کردہ “گارڈینز آف دی بیلٹ اینڈ روڈ” کے عنوان سے ایک رپورٹ کے مطابق چین میں 5000 سے زیادہ نجی سیکیورٹی کمپنیاں ہیں، جن میں سے 20 سیکورٹی کمپنیاں بین الاقوامی سطح پر کام کررہی ہیں- ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان چین کو مختلف ذرائع سے پاکستان میں کام کرنے کی کھلی چھوٹ پہلے ہی خفیہ طور پر دے چکی ہے لیکن چین اب اپنے شہریوں کے لئے خود کی سیکورٹی فراہمی میں پرجوش دکھائی دے رہا ہے- چاہے وہ سیکورٹی چینی ٹھیکیداروں یا مزدروں کے شکل میں ہو-
متحرک بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے چینی مفادات اور شہریوں پر حالیہ مہلک حملوں کے بعد پاک چین بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ عالمی سطح پر ایک گرم مباحثے کا حصہ بن چکی ہے۔ سنگاپور میں “ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز” کے سینئر فیلو جیمز ڈورسی نے کہا کہ اگر چینی سیکیورٹی کمپنیاں پاکستان میں چینی مفادات کی حفاظت کرنے پر مامور کئے گئے تو مقامی سطح چین کے خلاف ناراضگی میں شدت آئیگی-
یہ بھی پڑھیں: پاکستان و چینی مفادات پر مہلک حملے کرنے والی مجید بریگیڈ کون ہے؟
ماہرین نے کہا کہ خاص طور پر یہ خدشہ بلوچستان میں حقیقت ہوگی جہاں چین مخالف جذبات پہلے ہی بہت زیادہ مضبوط ہیں۔ بلوچ آزادی پسند چین کو بلوچستان میں نوآبادیاتی طور پر دیکھتے ہیں اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کو قومی وسائل کی استحصال کا ذریعہ قرار دیتے ہیں- ان بلوچ آزادی پسندوں کو یہ خوف ہے کہ ایسے پروجیکٹ کی کامیابی کے بعد وہ لوگ آخر کار اپنے ہی علاقے میں اقلیت بن جائیں گے۔ ڈورسی نے کہا کہ “چینی مفادات ایک طرف بلوچ باغیوں اور دوسری جانب پاکستانی طالبان کی طرف سے حملے کی زد میں ہیں-“
تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ چین کا یہ اقدام در اصل بلوچ باغیوں کی جانب سے قتل کئے گئے اپنے شہریوں کے ہلاکت کے باعث اندرونی طور پر عوامی ردعمل سے بچنے کی ترغیب ہے جبکہ نجی چینی سیکیورٹی کمپنیاں پہلے ہی وسطی ایشیا اور افریقہ میں سرگرم چینی پروجیکٹس اور ان پر کام کرنے والے چینی شہریوں کو سیکورٹی فراہم کررہے ہیں جبکہ بیجنگ اسی ماڈل کا پاکستان میں نفاذ چاہتا ہے-
ولسن سنٹر تھنک ٹینک واشنگٹن میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کے مطابق اگرچہ بیجنگ نے پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کو مختلف قسم کی حمایت فراہم کی ہے لیکن اس نے ہمیشہ سیکیورٹی کے معاملے پر پاکستان کو ناکام قرار دیا ہے- اگر بیجنگ اب پاکستان میں اپنی سیکیورٹی خود لانے کے لیے تیار ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ بیجنگ نے اپنے مفادات کے تحفظ کی پاکستان کی صلاحیت پر سے مکمل طور پر اعتماد کھودیا ہے-
وارساکی جنگی مطالعہ یونیورسٹی میں ایشیا ریسرچ سینٹر کے سربراہ کرزیزٹوف ایوانیک کا خیال ہے کہ یہ بات قابل فہم ہے کہ اسلام آباد پاکستان کے اندر چینی منصوبوں کی سیکیورٹی پر اپنا کنٹرول نہیں چھوڑنا چاہتا کیونکہ یہ اسلام آباد کی خودمختاری کا معاملہ ہے۔ تاہم چینی شہریوں کو سیکورٹی فراہم کی گئی نجی کمپنیوں کو خدشہ ہے کہ بیجنگ کسی بھی موقع پر انھیں فنڈنگ کی فراہمی روک سکتا ہے-
تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے پاکستان معاشی بحران کا شکار ہے اور اسے چینی سرمایہ کاری اور دیگر امداد کی اشد ضرورت ہے پاکستان بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو خطرے میں ڈالنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے گزشتہ جمعہ کو پاکستان نے کہا کہ اسے اپنے گھٹتے ہوئے غیر ملکی ذخائر کو بڑھانے میں مدد کے لیے چینی قرض دہندگان میں 2.3 بلین ڈالر موصول ہوئے ہیں۔تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ امداد دینے کے بدلے چین نے اپنے سیکورٹی کنٹرول کی پیشکش شرط بنائی ہے-
کوگل مین نے نکی ایشیاء کو بتایا کہ چین بھی پاکستان کے ساتھ اپنے مفادات کو خراب نہیں کرسکتا لیکن بیجنگ کو یقین ہے کہ کے وہ سیکورٹی کنٹرول کے لئے پاکستان پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔