بلوچستان کے ضلع ہرنائی کے علاقے شاہرگ کے رہائشی بی بی حاجرہ نے لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے کام کرنے والی تنظیموائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے کیمپ آکر اپنے شوہر مجیب الرحمٰن ولد عبدالرحمٰن کے کوائف جمع کئے۔
لاپتہ مجیب الرحمن کی اہلیہ نے الزام عائد کیا ہے کہ چھ ماہ قبل پیرا ملٹری فورس (ایف سی)، سی ٹی ڈی اور خفیہ ایجنسیوں کےاہلکاروں نے اس کے شوہر کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے جس کے بعد ان کے بارے میں معلوم نہیں کہاں اورکس حال میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس دن وہ صبح آٹھ بجے گھر سے نکلا تھا اور کوئلہ کانکنوں کو لے جارہا تھا کہ فورسز نے انہیں حراست میں لیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ فورسز نے وہاں موجود لوگوں کو دھمکی دی ہے کہ اس کے اغواء ہونے پہ گواہی دی ان کو بھی اغواء یا قتل کیاجائے گا۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات روزانہ رونما ہورہے ہیں، قوم پرست اور انسانی حقوق کے ادارے پاکستانیفورسز و خفیہ ایجنسیوں پہ الزام عائد کرتے ہیں کہ لوگوں کو اغواء کرنے میں وہ برائے راست ملوث ہیں تاہم فورسز ان الزامات کی تردیدکرتے ہیں۔
گذشتہ دنوں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض پیرزادہ نے ایک انٹرویو کے دوران الزام عائد کیا ہے کہ لاپتہ افراد نےہمسایہ ممالک میں پناہ لے رکھی ہے اور ان میں سے کچھ دہشت گردی کی کارروائیوں میں مارے گئے جن کے کلبھوشن یادیو یاہمسایہ ممالک سے رابطے تھے‘۔
مذکورہ وزیر کے بیان پہ لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی صاحبزادی اور وی بی ایم پی کے رہنما سمی دین نے ردعمل دیتے ہوئے سماجیرابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پہ لکھا ہے کہ شرم کا مقام ہے ہیکہ اس ملک کا وزیر انسانی حقوق یہ کہہ کر”غریب لوگ پیسے کیلئےہمسایہ ممالک کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہیں” جبری گمشدگیوں کی حمایت کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر جتنے بھی سنہرے چادر بچائیں، کوئی بھی جواز نکالیں لیکن جبریگمشدگی غیرقانونی ہے۔
سابق سینیٹر افرسیاب خٹک نے اس بیان پہ ردعمل دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ وزارت انسانی حقوق کی کرسی میں کیا مرض ہے کہ اسپر بیٹھنے والے فوری طور پر انسانی حقوق کے مخالف بن جاتے ہیں، اور ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، اب ڈاکٹر ہی بتا سکتے ہیں کہ علاج کے لیے سپرے کرسی پر ہونا چاہیے یا وزیر پر۔