شہید ظہور بالی اور ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بی ایل ایف

736

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو جاری بیان میں شہید ظہور بلوچ عرف بالی اور ساتھیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ 19 جون 2022 بروز اتوار پنجگور کے علاقے پروم میں انجیر کوہ کے مقام پر پاکستانی فوج نے مقامی جاسوسوں اور ڈیتھ اسکواڈ کے ساتھ مل کر سرمچاروں کو گھیر لیا جس سے فوج اور سرمچاروں کے مابین جھڑپ شروع ہوئی۔ اس جھڑپ میں پاکستانی فورسز کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور تنظیم کے پانچ ساتھی سرمچار ظہور حمل عرف بالی، اکبر عرف حمل، ساجد محمود عرف سمیر، صابر قادر عرف تاہیر،عطاء عرف ناصر ولد واحد بخش اور بی این اے کا ایک ساتھی سرمچارساجد عرف سگار وطن کی دفاع میں دشمن فوج اور اس کے مقامی مسلح دلالوں کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

بی ایل ایف کے ترجمان نے کہا کہ  شہیدظہور حمل عرف بالی ولد امین بلوچ سکنہ آواران زمانہ طالب علمی سے بلوچ سیاست سے وابستہ تھے۔ اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ اپنے علاقے میں چئیرمین کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ وہ 2011 سے بی ایل ایف سے منسلک تھے۔ انہوں نے نہایت ہی کم وقت میں گوریلا جنگ میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے بلوچستان کے کئی علاقوں جھاؤ، آواران، کولواہ، کیلکور، بالگتر، پنجگور، پروم، راغے، گورکوپ اور اورماڑہ سمیت کئی علاقوں میں مختلف فوجی مہمات میں دشمن کے خلاف بہادری سے جنگیں لڑیں اور دشمن کو کاری ضرب لگاتا رہا، وہ اپنی صلاحیتوں، محنت اور خدمات کی بنا پر کیپٹن کے عہدے پر فائز تھا۔ اس نے نہایت احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ وہ جلد ہی ایک اہم جنگی کمانڈر کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔ بابا خیر بخش کی شہادت کے بعد زیادہ تر ذمہ داریاں شہید ظہور عرف بالی کے سپرد کی گئیں۔  وہ راغے، کولواہ اور اورماڑہ میں بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کے تمام اہم آپریشنوں میں ایک اہم کردار تھا۔ پروم جھڑپ میں شہید ہونے والے صابر قادر عرف تاہیر اور شہید ظہور آپس میں کزن ہیں۔ ان کی شہادت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پْر کرنا ممکن نہیں لیکن انہوں نے اپنی نوجوانی میں جو کارہائے نمایاں سر انجام دیئے وہ جوان نسل کیلئے یقینا مشعل راہ ہیں۔ اسی طرح ان کی سچائی، تنظیم و تحریک آزادی کے ساتھ دل و جان سے وابستگی، گلزمین  سے بے لوث محبت، قومی خدمات اور جذبہ آزادی نے تنظیم کو منظم اور عوامی پزیرائی حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ شہید صابر قادر عرف تاہیر ولد قادربخش نے آواران کے مشرقی پہاڑی علاقے پاؤ میں اپنا بچپن گزارا۔ علاقے میں اسکول نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے لیکن قومی شعور اور جذبہ آزادی کے باعث  بلوچستان کی جنگ آزادی نے انہیں اپنی طرف مائل کیا۔ وہ 2012 کو بی ایل ایف میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد جنگی محاذ میں بہت جلد ایک ٹیکنیکل اور ماہر سرمچار کی صورت میں سامنے آیا۔ وہ تنظیم میں لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز تھا۔  2013 میں آواران اور گرد و نواح میں آنے والی خوفناک زلزلہ کے بعد قابض فوج کی کثیر تعداد میں آمد اور آزادی پسند سیاسی کارکناں کے خلاف آپریشن، گھر بار اور املاک کو نقصان پہنچانے سمیت متاثرین کو علاقہ بدری کا شدت کے ساتھ ایک سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس دوران گوریلا جنگی صلاحیتوں سے لیس تاہیر اپنے دستے کے ساتھ کئی معرکوں میں دشمن فوج  پر  کامیاب حملے کرتے رہے۔ گوریلا ٹریننگ کے دوران اس نے ساتھی سرمچاروں سے تعلیم حاصل کرکے لکھنا اور پڑھنا بھی سیکھ لیا۔ وہ اپنے گوریلا دستے میں ڈپٹی کمان کے منصب پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ تنظیمی انٹیلیجنس ٹیم ورک کو متحرک کرانے میں بھی ہمیشہ آگے رہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ شہیدساجد محمود عرف سمیر ولد محمود بلوچ سکنہ گندچائی کولواہ زمانہ طالب علمی سے بلوچ قومی سیاست سے منسلک رہا ہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد وہ 2018 سے بی ایل ایف کے ساتھ وابستہ ہوئے اور شہید خیربخش عرف بابا کی نگرانی میں مختلف جنگی معرکوں میں شریک رہا۔ وہ تنظیم میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز تھا۔ وہ کولواہ میں قابض فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں زخمی بھی ہواتھا۔ اس دوران ریاستی مظالم سے ساجد محمود اور ان کے رشتہ داروں کے گھروں کو جلایا گیا، اس کے لواحقین کو علاقہ بدر کیا گیا۔ لیکن وہ تمام مظالم کو برداشت کرتے رہے۔  وہ بہادری اور برداشت میں ساتھیوں کیلئے ہمیشہ ایک مثال رہا ہے۔ وہ مکران اور کولواہ میں براس کے مختلف جنگی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا رہا۔

ترجمان نے کہا کہ اکبر علی عرف حمل جان ولد نور محمد سکنہ شے کنری بزداد آواران،دو ہزار بارہ سے بلوچ تحریک آزادی کے جمہوری محاذ پر جدوجہد کر رہے تھے۔ اپنے علاقے اور اردگرد کے گاؤں میں پارٹی موبلائزیشن اور ممبر سازی میں انتہائی متحرک اور سرگرم رہا ہے۔ مشکل ترین حالات اور ریاستی مظالم سمیت معاشی مشکلات اور علاقہ بدری کے دوران شہید اکبر کی بیوی ایمرجنسی میں  علاج نہ ملنے پر حرکت قلب بند ہونے کے باعث شہید ہوئیں۔ وہ ان تمام مشکلات کے باوجود اپنی سیاسی پروگرام کو اولیت دیتا رہا۔ جب ریاست نے سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی اور قتل میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، تو شہید اکبر    2015 میں بی ایل ایف کے پلیٹ فارم پر قومی آزادی کے کاروان میں شامل ہوگی۔ وہ بی ایل ایف میں شمولیت کے بعد مسلح سرگرمیوں میں ایک ذمہ دار سرمچار کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھاتے رہے اور آخری سانس اور خون کے آخری قطرے تک بلوچ تحریک کے ساتھ جڑے رہے اور تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہوئے۔ یہ ہم سب کیلئے اعزاز، باعث فخر اور عزت کا مقام ہے۔

شہید عطاء عرف ناصر ولد واحد بخش ساکن پروم گزشتہ ایک سال سے بی ایل ایف کے ساتھ وابستہ تھ۔ وہ تنظیم کے شہری نیٹورک سے وابستہ تھے اور ایک سال کے کم عرصہ میں متاثرکن کارکردگی اور ہمت دکھایا۔

میجر گہرام بلوچ نے کہا کہ شہداء نے محاذ جنگ پر دشمن کے ساتھ بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ بی ایل ایف انکی شہادت پر انھیں خراج عقیدت  پیش کرتے ہوئے آزاد بلوچستان کی حصول  تک ان کی مشنِ آزادی کو جاری رکھے گا۔