پنجگور؛ ایک مقتل گاہ ۔ محمّدبخش شاہوانی

384

پنجگور؛ ایک مقتل گاہ

تحریر: محمّدبخش شاہوانی

دی بلوچستان پوسٹ

پنجگور میں بدامنی کی جڑیں آئے دن مضبوط تر ہوتی جارہی ہیں۔ گذشتہ کچھ مہینوں کے دوران پنجگور میں 50 سے زائد معصوم بےگناہ شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ پنجگور کے لوگ انتہائی نامناسب اور مشکل حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پنجگورابھی سخت بدامنی اور بدحالی کا شکار ہے۔ پنجگور کے لوگوں کو بجلی ، صحت امن و امان کچھ بھی میسر نہیں، یہاں کے عوامپتھر کے دور کی زندگی گزار رہے ہیں۔صحت اور تعلیم کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔ لوگوں کو بنيادی سہولیات تکمیسر نہیں۔

اگر شرح خواندگی کے لحاظ سے دیکھیں تو پنجگور پورے بلوچستان میں دوسرے نمبر پر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پنجگور اس وقت خونریزی /قتل و غارتگری میں پورے بلوچستان میں اول نمبر پر ہے۔ دوسری طرف پنجگور کے سیاسی نمائندگان اور انتظامیہ کی خاموشیایک سوالیہ نشان ہے۔ جن کی وجہ سے پنجگور میں امن و امان کی صورتحال بدتر ہوتا جارہا ہے۔

پنجگور اب پہلے والا پنجگور نہیں رہا۔ پنجگور شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہے ۔ ٹارگٹ کلنگ روزانہ کا معمول بن گیا ہے اور اس وقتپنجگور مقتل گاہ کا منظر پیش کررہا ہے ۔ یہاں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں ہے ۔ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ بے گناہ شہریوں کو سرعام نشانہ بنارہے ہیں. پنجگور کے حالات مسلسل خرابی کی طرف جارہے ہیں ۔ پنجگور جل رہا ہے ۔ یہاں عامآدمی کی زندگی عذاب بن چکی ہے.

کچھ مہینوں کے دوران قتل ہونے والے بے گناہ معصوم شہریوں کی تعداد ایک رپورٹ کے مطابق پچاس (50) تک پہنچ گئی ہے۔ امن وامان کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے لیکن موجودہ حکومت نے اپنی  ذمہ داریوں سے کنارہ کشی کی ہوئی ہے ۔موجودہ حکومت کی طرح پنجگور کے باقی تمام سیاسی ،سماجی ، سول سوسائٹی اور باقی تنظیمیں تماشائی کا رول ادا کررہے ہیں ۔ان کی جانب سے بھی کوئی پیش قدمی نہیں ہورہی ہے۔ صرف مذمتی بیانات دے کر وہ اپنے ذمہ داریوں سے پلہ جھاڑتے نظر آرہے ہیں۔ان لوگوں کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ خون چاہے غریب کا ہو یا امیر کا خون ہی ہوتا ہے ۔خون کے رنگ میں کوئی فرق نہیں ہے۔پنجگور کے حالات کو دیکھا جائے تو یہ ایک بڑے المیے سے کم نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟

پورے پنجگور کو اسلحہ والوں کے کرم پر چھوڑ دیا گیاہے، دن دھاڑے یہ لوگ پھرتے رہتے ہیں ۔ خونی کھیل کے بدترین متاثرین وہ غریبعوام ہیں جو بے گناہ ان مسلح افراد اور کالے شیشوں والی گاڑیوں میں سوار ویگو V,GO والوں کے ہدف بن جاتے ہیں ۔ جن کا کسیسے کوئی تعلق نہیں۔ پھر بھی یہ لوگ ان کو اپنا ہدف بناتے ہیں۔

پنجگور کے عام لوگوں کے پاس اسلحہ کی کوئی کمی نہیں۔ پنجگور میں آج کل ہر کسی کے پاس اسلحہ ہے، پوچھنے والا کوئی نہیںجہاں استعمال کرسکتے ہیں کرتے ہیں اور آج کل سبزی فروش، درزی اور موچی کے پاس بھی اسلحہ موجود ہے۔ پنجگور کے ضلعیانتظامیہ اور پولیس کی نا اہلی سے پنجگور مقتل گاہ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ پنجگور پولیس ان لوگوں کے خلاف موثر کاروائی کرنےمیں مکمل طور پر ناکام رہی ہے ۔ پورے پنجگور میں جنگل کا قانون نافذ ہے، کوئی بھی فرد محفوظ نہیں ہے اگر پنجگور کے حالات اسطرح رہے تو پنجگور قبرستان میں تبدیل ہوجاۓ گا۔

اب پورے پنجگور کے عوام کو ان لوگوں کے خلاف يكجا ہونا ہوگا۔ جب تک پنجگور میں مسلح افراد کے خلاف موثر اقدامات نہیں کئےجائیں گے ، تب تک خون ریزی، تشدد اور اغوا کاری کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ بےگناہ لوگوں کو قتل اور اغوا کرنے کا سلسلہ بند کیاجائے اور شہید داد جان، شہید سمیر ، شہید ضمیر، شہید صغیر، اور باقی شہیدوں کے قاتلوں کو پکڑ کر کٹہرے میں لایا جاۓ اورانہیں سزا دی جائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں