ترکی کے شہر دیارباقر میں گزشتہ ہفتے 16 صحافیوں کو حراست میں لیا گیا تھا جن کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان زیرِ حراست صحافیوں پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ‘دہشت گرد تنظیم کے اراکین’ ہیں۔ عدالت نے ان افراد کو اب باقاعدہ گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
وائس آف امریکہ کی ترک سروس کے محمود بوز ارسلان کےمطابق دیارباقر کے چیف پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے ترکی میں کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی ذیلی تنظیموں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا تھا اور اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے آٹھ جون کو 22 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جن میں 20 صحافی اور دو دفتر میں کام کرنے والے افراد تھے۔
ترک پولیس نے آٹھ جون کی صبح میزوپوتامیا نیوز ایجنسی، جن نیوز ویب سائٹ، پروڈکشن کمپنی پیل اور ڈیجلے فرات جرنلسٹس ایسوسی ایشن سے وابستہ کئی صحافیوں کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارے تھے۔
اس دوران پولیس نے ان افراد کے گھروں سے کمپیوٹرز،موبائل فون، ڈیٹا محفوظ رکھنے کے لیے استعمال ہونے والی ہارڈ ڈرائیوز اور دیگر سامان ضبط کیا تھا۔
حراست میں لیے گئے افراد میں ڈیجلے فرات جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے شریک سربراہ سردار التان، جن نیوز کی سربراہ صفیہ الاگس، میزوپوتایا نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر عزیز اورک بھی شامل ہیں۔
اس معاملے کے پس منظر سے متعلق دیارباقر پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ یہ آپریشن کردستان ورکرز پارٹی کی ‘پریس کمیٹی اسٹرکچر’ کے خلاف تھا۔واضح رہے کہ ترکی، امریکہ اور یورپی یونین پی کے کے کو دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں۔
حکام کا کہنا تھا کہ دیارباقر میں موجود کچھ پروڈکشن کمپنیاں پی کے کے سے منسلک بیلجیم سے تعلق رکھنے والے اسٹرک ٹی وی اور برطانیہ میں موجود میڈیا ہیبر ٹی وی کے لیے مواد تیار کر رہی تھیں۔ اسٹرک نے فوری طور پر اس معاملے پر کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔
ان افراد کو پولیس نے ضابطے کی کارروائی کے بعد بدھ کو عدالت میں پیش کیا تھا۔
ان تمام ملزمان نے پراسیکیوٹر کے سامنے اپنا پہلا بیان دیا جہاں بدھ کی صبح شروع ہونے والے بیانات کو مکمل ہونے میں تقریباً 16 گھنٹے لگے تھے۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ نے رپورٹ کیا کہ میڈیا اینڈ لا اسٹڈیز ایسوسی ایشن اور مقامی میڈیا نے جمعرات کو کہا ہے کہ عدالت نے گرفتار کیے جانے والے 16 کرد صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو جیل بھیج دیا ہے۔
ادھر کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق ترکی نے گزشتہ دہائی کے دوران کسی بھی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ صحافیوں کو قید کیا ہے۔
علاوہ ازیں کئی میڈیا گروپس نے گزشتہ ہفتے کی حراستوں کو ‘بے رحم’ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔