خوف و کتاب کے بیچ زندگی
تحریر: یوسف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ طلبا کے لیئے پاکستان کے بڑے شہروں میں پڑھنا اب خاصہ دشوار ہو چکا ہے۔ اب المیہ یہ ہے کہ یونیورسٹی جانے والے بلوچ طلبا کتاب کو بیگ میں رکھ کر جائے تو لاپتہ ہونے کا خوف پیچھا کرتے ہوئے ہمسفر بن کے جاتا ہے۔ لٹریچر کی رومانوی داستان ہو یا سائنسی علوم سب کچھ خوف کے سائے میں پڑھتے ہیں۔
گویا اسلام آباد، پنجاب،شہری سندھ کے بڑے تعلیمی اداروں میں بلوچ کے سلیبس میں رد و بدل کرکے خوف کو نصاب کا حصہ کیا گیا ہو۔
ہنستے بستے مسکراتے، چہرے پر خوف کے خدوخال،گھر میں موجود والدین جن کی تنخواہ اور مزدوری سے ان کے بیٹوں کی بڑے شہروں میں داخلہ ممکن ہو گیا تھا اب وہ کسی انجانے میں پریشان ہیں۔ جن کے بچے لاپتہ ہیں وہ پریشان ہی ہیں لیکن جن کے بچے لاپتہ نہیں کیے گئے ہیں وہ بھی پریشانی اور کرب میں مبتلا ہیں۔
لواحقین کا ایک مطالبہ تو شاید یہ ہوگا کہ جناب آپشن تو دو دیجئے۔ اٹھاؤ یا خوف ختم کرو۔ پڑھنے دو یا کراچی،اسلام آباد،لاہور،راولپنڈی چھوڑنے کا سمن دو۔
جب تک سمن نہیں آئے گا۔ وارننگ نہیں ملے گی تب تک چار بلوچ طلبا جدید دنیاوی علوم کے چار سطور حفظ کرنے میں لگے رہیں گے۔
لیکن محدود آپشن نہ پڑھنے دیتا ہے اور نہ ہی جینے۔ یونیورسٹی اور رہائش گاہ میں لاپتہ ہونے کا خوف،ازیت خانوں میں فیک ایف آئی آر کا خوف۔۔۔بے گناہی کا اسیر بننے کا خوف تو سوار ہی سوار ہے دہائیوں سے۔
دونوں اطراف خوف کا یہ عالم کہ اغوا کار بھی نہیں جانتا کہ میں اسے اغوا کیوں کر رہا ہوں۔ مغوی سوچ و بچار میں ہے کہ میں کیوں لاپتہ ہو رہا ہوں۔ لاپتہ کرنے کا کیس بھی کنفیوز ہے کہ کیس ہے ہی نہیں۔ بہرحال عدالت تک معمہ جاتا بھی نہیں ورنہ جج صاحب مغوی و اغواکار کا پہچان بھی نہیں کر سکے۔ کیس وکیل،استغاثہ،پراسکیوٹر،متعلقہ اداروں کا آئیں بائیں شائیں کا منظر الگ،تاریخ پہ تاریخ کی روایتی رواج کا قّصہ اور داستان گوئی الگ۔
بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یہ سلسلہ کراچی یونیورسٹی پہ مبینہ حملے کے بعد شروع ہوا ہے۔ لیکن یہ تجزیہ بھی آدھا تیتر اور آدھی بٹیر جیسی ہے۔ تیتر یہ کہ کراچی حملے کے بعد اس تسلسل میں کافی تیزی ضرور دیکھی گئی ہے۔ اور بٹیر یہ کہ اس سے پہلے قائداعظم یونیورسٹی میں شعبہ فزکس کا طالبعلم حفیظ بلوچ کو خضدار سے لاپتہ کیا گیا۔ چالیس دن بعد ڈیرہ مراد جمالی پولیس تھانہ لایا تھا ، سنگین الزامات کی روشنی میں آج ڈیرہ مراد جمالی کی سینٹرل جیل میں قید ہیں۔
اس کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی کے سہیل اور فصیح بلوچ بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل سے اغوا کیے گئے اور تربت یونیورسٹی کے شعبہ بلوچی (پہلی سیمسٹر) کا طالب علم کلیم شریف بھی کراچی حملے سے پہلے لاپتہ کیے گئے ہیں۔ اسی لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ سلسلہ کافی پرانا اور طویل ہے جس کی شاخیں چودہ سے پندرہ سالوں میں ملتی ہیں۔
لیکن اس تسلسل کا دوسرا رخ پنجاب اور اسلام آباد میں بلوچ طلبا کی جبری گمشدگیاں ہیں، جن سے پہلے یہ سلسلہ بلوچستان تک محدود رہتا تھا۔
کراچی میں حکومت ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی۔ محترمہ شہید بینظیر سے بلاول تک پی پی نے جو بھی سیاسی طشت از بام دیکھے ہیں، عروج و زوال کی تاریخ دیکھی ہوگی لیکن پی پی کا بلوچی ترانہ “دلاں تیر بجا” ایسا ہی نیا ہے جیسا تیس سال پہلے ہوا کرتا تھا۔ یہ دراصل ایک نعرہ نہیں بلوچ جیالے کی جوش و خروش ہیں بھٹو خاندان پہ۔ پی پی کا گڑھ اگرچہ لیاری ہے اور لیاری ہے بلوچوں کی زمین۔ لیکن کراچی میں ان دنوں جس طرح سے بلوچ طلبا جبری لاپتہ کیے جا رہے ہیں، چند دن پہلے جس طرح سے لاپتہ افراد کے لواحقین کی ریلی پہ پولیس گردی ہوا تھا اور لاپتہ افراد کے لواحقین کو جس طرح پولیس تھانہ لے جایا گیا، وہ بھی بنا کیس کے۔ دونوں واقعات سے لگتا ہے کہ پی پی شاید لیاری کو اپنا سیاسی ووٹ بینک سمجھتا ہے لیکن خیر خواہی کے خواہشات اب دم ہی توڑ رہے ہیں ایسے کہ جیسے مریم نواز شریف کی بطور اپوزیشن سیاستدان کے پی ڈی ایم کوئٹہ جلسے میں لاپتہ افراد کے ساتھ کی گئی یقین دہانیاں۔
سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ بلوچ اپنے تعلیم یافتہ نسل کو بغیر جرم و عدالت، بغیر مدعی و منصف کوٹھڑیوں میں جاتی دیکھ رہی ہے۔
بلوچ کے نظر میں یہ ایک قوم کے شعور پر حملہ ہے اور اس کا کوئی جواز بھی نہیں بنتا۔ بلوچ طلبا سمیت تمام مکاتب فکر کے لوگ ہر روز اپنے صبح کی شروعات ایک نئے نام ” سیو بلوچ اسٹوڈنٹس ” اور “اسٹاف ہراسنگ بلوچ اسٹوڈنٹس ” کی ہیش ٹیگ کے ساتھ کرتی آ رہی ہے۔
بلوچ طلبا کو اب کتابوں کے اندر خوف کا تعارف اور سطریں پڑھائی جا رہی ہیں اور بلوچ طلبا کتاب پڑھنے، علم حاصل کرنے کےلیے بھی خوف محسوس کرتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں