طالب علموں کی گمشدگی کا المیہ
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ آزادی کی تحریک نے ریاست پاکستان کو نہ صرف معاشی، سیاسی، پسماندگی کا شکار بنادیا ہے بلکہ ایک نفسیاتی مریض بھی بنادیا ہے. کراچی یونیورسٹی کے کنفیونش سینٹر میں حملے کے بعد حواس باختہ ریاست مظلوم اور بے گناہ بلوچ طالب علموں سمیت مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنارہی ہے.
خاص کر بلوچ طالب علم اس کے خاص نشانے پر ہیں. جب کراچی یونیورسٹی کے چائینز کلچر سینٹر پر فدائی حملہ ہوا تو اس کے دوسرے دن پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل پر چھاپہ مار کر انگریزی ادب کے طالب علم بیبگر امداد کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا. اس کے بعد یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہا. 29 اپریل کو ملیر کراچی سے سعید عمر، گلشن اقبال سے شعیب اعظم جبکہ عیدالفطر کی پہلی رات کو کراچی کے علاقے ماری پور سے دو نوجوان اصضر اور علی کو لاپتہ کیا گیا، یہ دونوں نوجوان طالب علم اور اسپورٹس مین تھے. گیارہ مئی کو عمران بلوچ، بارہ مئی کو وحید بلوچ سترہ مئی کو فیروز کو لاپتہ کیا گیا. اصضر علی اور وحید کو بازیاب کیا گیا لیکن بائیس مئی کو ایک بار پھر ماری پور سے دو طالب علم سمیت مذید پانچ افراد کو لاپتہ کیا گیا جن میں علی بلوچ بھی شامل تھے. ستائیس مئی کو فشری سے دوران ڈیوٹی زبیر ولد مولابخش کو لاپتہ کیا گیا جو تاحال لاپتہ ہے. زبیر بلوچ ایک سماجی ورکر اور کل وقتی ٹیچر ہے.
یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ اس میں مذید شدت پیدا کی گئی، سات جون کو صبح پانچ بجے مسکن چورنگی کے گھر پر چھاپہ مار کر دودا الہی اور گھمشاد مرید جو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے طالب علم ہیں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا. دودا اور گھمشاد ہونہار طالب علم ہیں جبکہ دودا جگر کے عارضے میں مبتلا ء ہونے کی وجہ سے حال ہی میں اپنا جگر کا آپریشن کرچکے ہیں.
مابعد شاری واقعی یہ ریاست نفسیاتی مریض بن چکا ہے، ہربرٹ اسپینسر ریاست کے حیاتیاتی نظریہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طرح ایک فرد کی طبعی عمر ہوتی ہے اسی طرح ایک ریاست کی طبعی عمر ہوتی ہے.
آج یہ ریاست اپنی طبعی عمر کے اختتام تک پہنچ گئی ہے، سیاسی و معاشی بیماریوں نے اس ریاست کو کھوکھلا کردیا ہے اس لیے نفسیاتی بیماریوں کو شکار ہو کر بلوچ نوجوانوں خاص کر طالب علموں کو نشانہ بنارہی ہے.
بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگی ایک المیہ ہے کیونکہ یہی طالب علم قوم کے مستقبل ہے. قوم کے مستقبل کا لاپتہ ہونا پاکستان میں کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ پاکستان بلوچ قوم کو ان کے مستقبل کے معماروں سے محروم کرکے اپنے قبضے کو طول دینا چاہتی ہے.
دودا بلوچ و گمشاد کا اغوا ہونا ایک المیہ ہے اور اس المیے کے خلاف بلوچ قوم کو متحد ہو کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ دودا کی بہن کی درد و تکلیف، شعیب اعظم کی بہن کا درد ایک ہی ہے اور اس درد کی دوا دودا، گھمشاد و شعیب اعظم سمیت تمام لاپتہ افراد کی بازیابی ہے اور اسکے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں