میں عامر لیاقت کے انجام سے کیسے بچا؟
تحریر: عابد میر
دی بلوچستان پوسٹ
آج سے کوئی آٹھ دس ماہ قبل میں جس ذہنی کرب سے گزرا، قریبی دوستوں کے علاؤہ فیس بک کے مستقل قاری بھی اس سے آگاہ ہیں۔ وہ جان کاہ ایام تھے۔ کئی ماہ سے اندر ہی اندر پنپتا ڈپریشن ایک معمولی سے واقعے سے یک دم ٹریگر اپ ہوا اور میں اگلے ہی لمحے موت کے دہانے پہ کھڑا تھا۔
معروضی حالات کا جبر اور نجی واقعات کا تسلسل اپنی جگہ، مگر مجھے اس کیفیت میں مبتلا کرنے والوں میں میرے بعض بہت قریبی لوگ پیش پیش تھے۔ اور یہی وہ تکلیف دہ لمحہ تھا جب مجھ جیسے واریئر مزاج آدمی کو لگا کہ اب نہیں لڑا جا سکتا۔ بڑے سے بڑے دشمن سے لڑنے والا بھی اپنے پیاروں کے سامنے ہار جاتا ہے۔ سو میں ہار گیا اور میں نے سرنڈر کر دیا۔
میں نے اس سرنڈر کا اعلان کیا تو اس پہ بھی طنز ہوا، طعنے اٹھے، آوازیں کسی گئیں، میمز بنائی گئیں، کارٹون بنائے گئے۔ اور یہ سب وہ کر رہے تھے یا کروا رہے تھے جنہیں میں نے جاں سے عزیز رکھا تھا۔ ایسے میں کئی پیارے خاموش تماشائی بھی تھے اور کچھ دُور بیٹھ کر چسکا لینے والے۔ (یہ آج اس تحریر کا بھی چسکا لیں گے اور اس کا بھی ٹھٹھا اڑانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے)۔
رات کے تیسرے پہر میں جب اپنے حتمی سرنڈر کا سوچ کا لیٹا تھا، مجھے نہیں پتہ تھا اگلے چوبیس گھنٹوں میں میرے ساتھ کیا ہو گا۔ میں زندگی سے پیار کرنے والا آدمی تھا، اس لیے چاہتا تھا کہ اپنی جان خود نہ لوں، کسی طرح میرے دماغ کی رگ پھٹ جائے، دل کام کرنا چھوڑ دے، میں رات کو سوؤں تو پھر نہ اٹھوں…
اور صبح میرے اٹھنے سے پہلے، سورج کی کرن کے ساتھ میرے پیارے کچھ دوست میرے گھر پہنچ کر میرے جاگنے کے منتظر تھے۔ یعنی میں ریسکیو ہو چکا تھا۔ میں نے تو رو دھو کر فوری بوجھ ہلکا کیا۔ دوست کے ساتھ گاؤں نکل گیا۔ اگلے کچھ دن گپ بازی کے سوا کچھ نہ کیا۔ واپس آ کر فوراً ڈاکٹر سے کنسلٹ کیا۔ کچھ مشورے اور کچھ میڈیسن نے بحالی کا کام شروع کر دیا۔ میں نے روٹین چینج کی، کتابیں چھوڑ کر فلموں میں گھس گیا۔ آوارہ گردی کی، خود سے ملاقات کی اور جس طرح ایک لمحے نے مجھے اس کیفیت میں مبتلا کیا تھا، ویسے ہی دوستوں سے ملے کندھوں اور کچھ اپنی ڈھٹائی کے زور پر ایک جست لگا کر اس کیفیت سے نکل آیا۔
جب نکل آیا تو ایک عرصہ اس پر سوچتا رہا، خودکلامی کرتا رہا اور حتمی نتیجہ یہ نکالا کہ زندہ رہنے کے لیے بے غرض و ہم درد دوستوں اور تھوڑی سی ڈھٹائی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ طے کیا کہ اب اس کیفیت کو کسی صورت پاس پھٹکنے نہیں دینا۔ اس پہ حاوی رہنا ہے۔ خواہ اس کے لیے اپنی بنیادی اخلاقیات سے ہٹ کر کچھ کرنا پڑے، سماجی اخلاقیات اور سماج کی باتوں پہ تو کسی صورت کان نہیں دھرنا۔
یوں ایک ڈیڑھ مہینے میں ہی میں بحال ہو چکا تھا۔
اس دوران کئی لوگ میرے لیے اسی انجام کے خواہش مند اور منتظر رہے جو آج عامر لیاقت کو نصیب ہوا۔ عامر لیاقت کی زندگی پہ کوئی بحث نہیں، وہ اس موت کا حق دار تھا یا نہیں یہ بھی ہمارا موضوع نہیں، مگر یہ بہرحال طبعی موت نہ تھی، یہ موت اس شدید ذہنی اذیت کا حتمی نتیجہ تھی جو اسے نہایت قریبی لوگوں کی طرف سے ملی۔ وہ جو بدزبانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا، میڈیا فیم میں جس کی کوئی نظیر نہ تھی، جو اپنے ہر موقف پہ ڈھٹائی کی حد تک ڈٹ جانے میں مشہور تھا، وہ جو مسلسل جیتتا رہا، وہ اپنے کچھ پیارے رشتوں کے سامنے ہار گیا۔ اور اس نے سرنڈر کر دیا۔
یہ کوئی ہنسی مذاق نہیں دوستو، آج سماج کا ہر دوسرا فرد اس ذہنی کیفیت کا مارا ہے، اکثریت مختلف حیلے بہانوں سے اس کیفیت کو قابو کیے رکھتی ہے، مگر جب آپ کے آس پاس کوئی ریسکیو کرنے والا نہ ہو تو اس سے بچنا سہل نہیں۔
عامر لیاقت جیسوں کی ایک بدقسمتی یہ ہے کہ سلیبریٹی بننے کے چکر میں یہ انسانوں سے انٹریکشن کھو دیتے ہیں۔ ان کا کوئی قریبی، کوئی لنگوٹیا دوست نہیں ہوتا جس سے ہر بات کی جا سکے، جو آپ سے محض ایک فون کال کی دوری پر ہو، بل کہ آپ کی فون کال کے بغیر ہی صرف آپ کی کیفیت دیکھ کر فوراً آپ کو ریسکیو کرنے پہنچے۔ جو کوئی سوال نہ کرے، کوئی نصیحت نہ کرے، کوئی بحث نہ کرے، بس آپ کا دکھ بانٹے، آپ کے اشکوں کو سہارا دینے والا کندھا بن جائے۔
میں خوش نصیب تھا کہ مجھے ہمہ وقت ایسے پیارے دوست میسر رہے۔ بچپن کے لنگوٹیے اور فکری رہ نما تو تھے ہی، فیس بک سے بھی درجنوں ایسے پیارے ملے جن سے فیس بک کی سلام دعا کے سوا کوئی تعارف نہ تھا مگر وہ مجھے ریسکیو کرنے کو ہمہ وقت موجود رہے۔ یہ سب اب میرے دل کے قریب ہیں، میں نے ان کے نام اور چہرے دل پہ ثبت کر رکھے ہیں۔
تلخ تجربے کی اس دلدل سے نکلنے کے بعد، انباکس میں آ کر رہ نمائی طلب کرنے والے نوجوانوں کے لیے اور خود کو ریویو کرنے کے لیے میں ان ایام کی روداد “ڈپریشن ڈائری” کے نام سے لکھ رہا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ اس سال سال گرہ والے ایام میں چھپ کر آ جائے۔
ایک بات یاد رکھیے، ہمارے آس پاس تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں؛ ایک خاموش تماشائی، جن کے لیے ہم ہیں تو ٹھیک نہیں ہیں تو بھی کوئی بات نہیں، اور اکثریت انہی کی ہوتی ہے۔ دوسرے وہ جن کے لیے ہمارا نہ ہونا ان کے ہونے کی دلیل ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ہمیں مختلف حیلے بہانوں سے موت کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں، کہیں شعوری تو کہیں لاشعوری طور پر۔ اور تیسرے وہ جو ہمارے وجود کا پورا احساس رکھتے ہیں اور ہمیں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، بنا کسی غرض و غایت کے۔
آپ نے بس کرنا یہ ہے کہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو ان کیٹگری میں رکھ کر دیکھنا ہے اور طے کرنا ہے کہ ان میں سے کون سے والے لوگ آپ کے لیے اہم ہیں۔ جونہی آپ نے یہ طے کر لیا، آپ موجودہ کیفیت سے جست لگا کر نکل جائیں گے، اگلا پڑاؤ آپ کا منتظر ہو گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں