زاکر مجید : جبری گمشدگی کے تیرہ سال اور جہد آجوئی کا کارواں ۔ سمّو نور

460

زاکر مجید : جبری گمشدگی کے تیرہ سال اور جہد آجوئی کا کارواں

تحریر: سمّو نور

دی بلوچستان پوسٹ

زاکر مجید کے جبری گمشدگی کو تیرہ سال مکمل ہوچکے ہیں، تیرہ سالوں سے زاکر جان عقوبت خانوں میں اذیت سہہ کر انہیں باور کرا رہے ہیں کہ پاکستان میری آنکھیں نکال سکتا ہے لیکن اُن میں بسے آزاد بلوچستان کے خواب کو ختم نہیں کرسکتا۔

زاکر مجید طالبعلموں اور بلوچ قومی جہد کا توانا آواز جو بلوچ قومی رہبروں کے صف میں شامل ہے، آج جدوجہد کے سفر میں اگر کوئی کمی ہے تو وہ ذاکر جان جیسے رہبروں کی ہے لیکن یہ ہمارا ایمان ہیکہ زاکر جان پاکستان کے ازیت خانوں میں انہیں باور کرا رہا ہیکہ تم مجھے ازیت دے سکتے ہو، مار سکتے ہو لیکن جہد آزادی کے فکر کو ختم نہیں کرسکتے، قومی آزادی کے کارواں کو روک نہیں سکتے۔

زاکر جان کے سیاسی جدوجہد کو پاکستان کے قید خانے نہیں روک پائے، 2006 کو خضدار جیل سے آزاد ہونے کے بعد سیاسی مزاحمت کے بیرک کو بلند کرکے نوجوانوں کی فکری قیادت کا علم بلند کیا۔ بلوچ آزادی کے تحریک میں نوجونوں کے لئے وہ ایک مثالی رہنما ہیں اور ریاست پاکستان خوف کا شکار تھا کہ زاکر جان جیسے رہبر کی فکری رہنمائی کتاب کررہا ہے، اُن کی علمی بالاد بلوچ نوجوانوں کی زہن سازی کررہا ہے اور بلوچ نوجوانوں کو فکر خیر بخش سے وابستہ ہونے کی تبلیغ کررہا ہے۔

ذاکر جان سال 2006 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سارے دھڑوں کے یکجھتی کے بعد متحدہ ( سنگل ) بی ایس او کے سیکٹری جنرل منتخب ہوئے ۔ 2006 کے بعد بلوچ راجی آجوئی کے کارواں کو بلوچستان کے ہر دمگ و میتگ تک پہنچانے کے سفر میں شامل تھے۔ چئیرمین بشیر زیب ، زاکر جان، شہید سنگت ثناء ، شہید آغا عابد شاہ اور کاروان آزادی کے ساتھیوں نے بلوچ نوجوانوں کو علمی و فکری طور پر تیار کرکے قومی آزادی کے جہد سے وابستہ کیا۔

2008 کو شال میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے قومی کونسل سیشن میں چیئرمین بشیر زیب کی رہنمائی میں زاکر مجید وائس چیئرمین منتخب ہوئے اور شفیع بلوچ ، رضا جہانگیر اور بانک کریمہ کے ساتھ جہد آزادی کے بیرک کو محکمی کے ساتھ بلند رکھا۔

سال 2009 بلوچ قوم اور قومی آزادی کی تحریک کے لئے ایک بہت درد بھرا اور سخت سال تھا ۔ اپریل کے مہینے میں بلوچ قوم کے عظیم سپوت اور بلوچ نیشنل مومنٹ کے چیئرمین غلام محمد بلوچ کو اپنے ساتھیوں شیر محمد اور لالا منیر کے ساتھ شہید کیا گیا ۔ 8 جون کو ذاکر مجید ساتھیوں سمیت مستونگ سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے اور 28 تاریخ کو بلوچ نیشنل مومنٹ کے رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو اور ناچ میں اُن کے ہسپتال سے اغوا کیا گیا ۔ ستمبر کے مہینے بی این ایم کے ڈپٹی سیکٹری جنرل رسول بکش مینگل کی مسخ شدہ لاش اوتھل سے برآمد ہوا اور خضدار سے بلوچ نوجوان مشتاق، کبیر اور عطاءاللہ لاپتہ کیے گئے ۔ سال کے آخری مہینے کی 7 تاریخ کو ذاکر جان کے فکری سنگت و جہدکار سنگت ثناء کو اغوا کیا گیا اور تین سال بعد اُن کی گولیوں سے چھلنی لاش تربت سے برآمد ہوا۔ بلوچ نوجونوں کے جبری گمشدگی کا ناختم ہونا والا ایک سلسلہ شروع ہوا اور اس کے بعد اِن نوجونوں کی مسخ شدہ و گولیوں سے چھلنی لاشیں جنگلوں ، بیابانوں اور پہاڑوں سے ملنا شروع ہوئے۔ اس کے بعد شہروں نے خاموشی کی چادر اوڑھ لی اور پہاڑ آباد ہوئے۔

جبری گمشدگی کے اسی تسلسل میں زاکر جان کے فکری سنگت کمبر چاکر دو بار پاکستان کے ازیت خانوں میں تشدد سہنے کے بعد اُن کی تشدد زدہ اور گولیوں سے چھلنی لاش کو پانچ جنوری 2011 کو سپرد گلزمین کیا گیا اور زاکر جان کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے والے رہنما چئرمین زاھد بلوچ آٹھ سال سے پاکستان کے عقوبت خانوں میں بند ہیں۔

زاکر مجید نے بلوچستان کے جِن علاقوں میں سیاسی مزاحمت کی رہنمائی کی وہ بھی زاکر جان کے طرح پاکستان کے ظلم و ستم کا شکار ہیں ۔ نیو کاہان جو بلوچ راجی جنز کا چیدگ ہے کہ وہاں شہدائے بلوچستان کا قبرستان آباد ہے اور بلوچ جہد آجوئی کے سرخیل اور فکری رہشون واجہ خیربخش مری کا مقبرہ موجود ہے، فوج کے گھیرے میں ہے۔ ذاکر جان کا بلوچستان یونیورسٹی تعلیمی ادارے سے بدل کر فوجی چھاؤنی بن چکا ہے۔

آج تیرہ سال مکمل ہوچکے ہیں کہ زاکر جان پاکستان کے اذیت خانوں میں بند ہے اور بلوچ سیاست نے تیرہ اہم سال زاکر جان کی رہنمائی کے بغیر گزارے ہیں۔ ان تیرہ سالوں میں زاکر جان کے بیشمار فکری سنگت جبری گمشدگی کے شکار ہوئے، کئی ساتھی شہید کئے گئے اور سینکڑوں جلاوطنی کی اذیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ زاکر جان کے ہم راہ و فکری سنگت بلوچ راجی آجوئی کے بیرک کو بلند کیے ہوئے ہیں اور آجوئی کا کارواں منزل کی جانب گامزن ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں