راسکوہ کے پہاڑ، یومِ تکبیر اور یومِ مذمت
تحریر: یوسف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
28 مئی 1998 کو چاغی کے راسکوہ پہاڑی سلسلے کو ایٹم بم کے تجربات نے چیر کے کہیں یومِ تکبیر کا پیغام پہنچایا تو کہیں یومِ سیاہ،یومِ مذمت کی صدائیں احتجاجیوں تک پہنچائے۔
مجھے نہیں معلوم کہ راسکوہ تجربہ گاہ بننے کے بعد کن قربانیوں کا شاہکار بن گیا البتہ یہ معلوم ہے کہ راسکوہ اور چاغی نے ایٹم بم کے عوض بہت کھویا کچھ نہیں پایا۔ قربانیوں کے انبار بسا دیئے بدلے میں صرف بے روزگاری پایا، غربت، امراض پایا۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات دیکھے بنجر بلوچستان دیکھا۔
ایٹمی تابکاری نے چاغی کے بلوچوں کو ان کی روزگار کی نعمت بھیڑ بکریوں سے محروم کرکے بے روزگار بنا دیا۔ تابکاری کے اثرات نے کینسر دیا۔ بنجر و خشک زمین ملا اور نقل مکانی کرنا مجبوری بن گئی اور زندگی قیامت۔
چاغی کے لوگوں نے اپنی روزگار کی قربانیاں دے کر کیا پایا، ہزاروں جانوروں کو جو ان کی روزگار اور ذرائع آمدن تھے مرتے دیکھا۔ تابکاری کے اثرات سے پانی زہر بن گئی، نسلیں پیدا نہیں ہوئیں، فالج اور دیگر امراض کا مریض بنا دیا اور کیا ملا؟ سات سالہ طویل خشک سالی میں بلوچستان نے سروائیو کیا اور کیا ملا؟
راسکوہ جن کا قیام گاہ تھا اور چاغی ان کا گھر۔ بھلے وہ انسان ہوں یا جانور۔ سب نے قربانی کے کاغذات میں اپنا نام کا اندراج کروایا۔ زمین سے محبت کے لیے مرتے رہے اور قربانی دیتے رہے۔ کینسر سے نیم مردہ انسان بنتے گئے اور قربانی دیتے گئے۔
چاغی میں ایٹمی دھماکے کے عوض چاغی کو گیس دینے اور نوشکی کو بجلی دینے کے اعلانات ہوئے۔ بہرحال یہ پُرآسائش، بادشاہی نوازشات نہ چاغی کو ملے اور نہ ہی نوشکی کو۔ یہ الگ بات ہے سوال یہ ہے کہ چاغی اور نوشکی کے انسان، جانور، بلوچستان کے آبیِ حیات اور آبیِ ذخائر کی زندگیاں نہ ملنی والی بجلی اور گیس سے بھی سستی ہیں؟ ان کے لیے بجلی اور گیس بادشاہوں کی ہزار نعمت لیکن جن کو شہری حقوق سے یہ سب کچھ ملا ہے ان کی قربانیاں کیا ہیں؟
کیا انہوں نے اپنی زمین کو تجربہ گاہ بنتے دیکھا ہے؟ اس سے جنم لینی والی اثرات کا علم ہے؟ نوشکی کی قربانیاں بجلی تک نہیں دے پائیں اور جو چوبیس گھنٹے بجلی،گیس کی نعمتوں سے فیض یاب ہیں اّن کی قربانیاں بھی ہیں یا صرف مہربانیاں ہیں؟
اس بات سے قطعِ نظر کہ سردار اختر جان مینگل کی سربراہی میں بلوچستان نے ایٹمی بم برداشت کیے اور اس بات سے بھی قطعِ نظر کہ اختر جان لاعلم تھے اور قطعِ تعلق تھے۔
یہ بات اتنا ہی گہرا ہے جتنا چھوٹا کیا گیا ہے۔ اختر مینگل بلوچستان کھ سربراہ تھے وزیراعلی تھے چاغی کو تجربہ گاہ بنانے سے متعلق لا علم تھے۔
غیر معمولی سیکورٹی کانوائے دیکھنا،بڑی شاہراؤں کو بلاک کرنا،چاغی تک ایٹم بم پہنچانا اور فائر کرنے تک وزیراعلی لاعلم تھے۔ یوں کہا جائے کہ صوبے میں جو کچھ بھی ہو رہا تھا۔ جہاں جہاں ہو رہا تھا۔ وہاں وہاں سے متعلقہ ایس ایس پی، آئی جی کو نہ بتا سکی یا آئی جی وزیراعلی کو۔ ڈی سی،کمشنر کو نہ بتا سکی،کمشنر کی معلومات چیف سیکریٹری تک نہ پہنچے اور چیف سیکریٹری وزیراعلی کی کان تک سرگوشی نہ کر سکے۔
ویسے پھر وزیراعلی اِن ایکشن نہیں ہوئی،آئی جی اور چیف سیکریٹری دبنگ نہ بنے۔ کسی کو کوئی نوٹس نہ ملی شوکاز نوٹس تک بات پہنچی بھی نہیں۔ اگر وزیراعلی صوبے میں غیر معمولی واقعات تک لاعلم رہے تو سربراہی اور اختیارات کس کام کے؟ اگر 28 مئی کو کچھ اور ہوتا تو کیا ہوتا؟ کیا اسی طرح وزیر اعلی لاعلم رہتے،اسی طرح لاعلمی کا بیان چار سوال کے سامنے ڈھیر ہوتا؟
بی این پی مینگل کی حکومت میں چاغی میں قیامت آئی لیکن پھر بھی ایک دہائی قبل تک بی این پی کے ایڈوکیٹ حبیب جالب بلوچ کی مرکزی سیکریٹری جنرل کی آفس سے یومِ سیاہ اور یومِ مذمت کے اعلامیے اور بیانات جاری ہوتے تھے۔ احتجاج کی کال موصول ہوتے تھے۔
اب چونکہ نہ حبیب جالب حیات ہے اور نہ ہی ان کی سیاسی نظریات۔ اسی طرح اب بی این پی بھی بلوچستان اور وفاق میں حکومتی اتحاد کے لولی پاپ کی حقِ حاکمیت رکھتا ہے اسی طرح یومِ سیاہ اور یومِ مذمت تاریخ کی اوراق تک محدود ہیں۔
بلوچ شاعر نے جس راسکوہ کو دیکھا،اُسی پر بلوچی شاعری میں ایک مشاہدہ بلوچی ادب کی نظر کیا۔ منظور بسمل نے راسکوہ میں ایک بلوچ کی زندگی کو اس طرح بیان کیا ہے۔ کہ
راسکوہ ءِ اسپیتیں کوہانی سرا
چو کفن پوشیں بلوچ ءِ زندگی
مختصراً ترجمہ ہے کہ راسکوہ کے سفید پہاڑوں کے اوپر بلوچ کی زندگی نے کفن پہنا ہوا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں