‏31 مئی 2021 چیئرمین آفتاب – جاندران بلوچ

565

‏31 مئی 2021 چئیرمین آفتاب

‏ تحریر: جاندران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مجھے قلم اجازت نہیں دیتا لکھنے کو، جتنا لکھوں وہ کم ہوگا، جب بھی لکھنے کا سوچتا ہو اس قدر خون رگوں میں دوڑتا ہے کہ ہاتھ دماغ سے جیسے خون باہر نکل کر آنے والی ہو، بڑی مشکل سے یہ الفاظ آپ کی نظروں کے سامنے پیش کررہا ہوں۔ اب مجھ سے رہ نہیں جا رہا ہے، گذرے سال آج ہی کے دن شام ڈھلنے والی تھی سورج ڈوب رہا تھا، ہوا پیغام دے رہی تھی، موسم خوشگوار تھا، پہاڑوں سے شاہد ہوا بار بار پیغام دے رہی تھی، ایسا لگتا تھا ہوا کے ساتھ ساتھ بہادری کے خون کی خوشبوں بھی آرہی تھی، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، کام میں مگن تھا، سبزی کو پانی لگ رہا تھا یوں کزن کے ساتھ انقلابی آزادی کی باتیں چل رہی تھی سرزمین کی ہوا کو محسوس کیا جا رہا تھا اچانک ایک نئے نمبر سے کال آئی، اکیلا ہوا ہیلو کرتے ہی سب سے پہلے سنگت نے ایک بات کی کہ چئیرمین۔۔۔۔ یہ آواز سنائی دی بس پھر جیسے عذاب آگیا ہو، سنگت روپڑا میں پوچھتا رہا کیا ہوا، کیوں رو رہے ہوں، جان کیا ہوا، چیئرمین کون، چیئرمین کو آخر ہوا کیا؟ سنگت کچھ تو بولو سنگت بولنے سے بلکل قاصر تھا منہ سے کچھ نکلنے کو نا تھا، پانچ چھ منٹ کال چلتی رہی چلتی رہی پھر جاکر اس نے کچھ بولا کہ چیئرمین آفتاب بلوچ ہم میں  نہیں رہا۔ یہ سننے کی ہی دیر ہی تھی جسم سن کو ہوگیا، دماغ  ساکت ہوا، کچھ ہوش نا رہا، میں وہی پر ہی سر پے ہاتھ رکھ کے بیٹھ گیا، پتا نہیں کال کب کٹ گئی جیسے سب طرف اندھیرا ہوگیا کچھ دکھائی نا دینے کو تھا، رونے لگا، جسم دماغ سب سن ہوگئیں

اس دوران پتا نہیں کتنا وقت وہاں میں بھیگتا رہا اچانک کزن سر پے آیا ہاتھ سر پے لگایا اور کہنے لگا کیا کر رہے ہو پانی بہت بھر گیا ہے زمین ٹوٹ رہی ہے، رات ہوگئی ہے تمہیں کیا ہوگیا ہے، پھر دور آکر ہم چپ بیٹھے رہیں، کزن نے پوچھا آخر تم یہاں کیا کر رہے ہوں، کیا پھر کسی محبوب کی یاد آرہی ہے۔ میں اٹھا اس کو یہ واقعہ بتایا، وہ پوچھنے لگا کیا چیئرمین۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا لیکن دل میرا بھی نہیں مانا پھر ادھر ادھر کال کرکے ساتھیوں سے بات کرنے کی کوشش کی، رابطہ نہیں ہورہا تھا، آخر ایک ساتھی کا نمبر مل ہی گیا اس  سے یہ پتا کیا لیکن دل میں دعا کر رہا تھا کہ اللہ کرے جھوٹ ہو ایسا نا ہو۔ چیئرمین ہمیں تنہا نہیں چھوڑ سکتا، اس نے بتایا کہ یہ سچ ہے چیئرمین آفتاب بلوچ قبضہ گیر کے ساتھ بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہد ہوگیا، ان کی چوکی پے قبضہ بھی جمایا، اس کے ساتھ دو اور ساتھی بھی شہد ہوئے ہیں، قابض کو شکست دی ہے۔ بولان کے پہاڑوں میں بہادری کی مثال قائم کی ہے۔ میں اس سے اداسی کا اظہار کرتا رہا وہ مجھے دلاسا دیتا رہا کہ یہ قربانی ہے وطن کی سرزمین کی یہ شہدوں کا خون ہے ان پے اداس نہیں ہونا چاہیے اس نے بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا ہے وطن، سرزمین، آزادی، کلچر، زبان ان کو زندہ رکھنے کے لئے یہ چیزیں قربانی مانگتی ہیں، قربانی پے اداس نہیں ہونا چاہیے۔ ایسی قربانیاں ہوتی رہتی ہیں آج چیئرمین شہید ہوا ہے وطن کی خاطر نسلوں کی خاطر اپنی آزادی کی خاطر قربان ہوا ہے، آج وہ کل ہم میں کوئی ہوسکتا ہے اس پے ہمیں فخر کرنا چاہیے، پھر جاکر کچھ دل کو دلاسا ملا کہ قربانی فرض ہے زندگی عارضی ہے عارضی زندگی میں خواہشات کی کوئی قیمت نہیں ہے۔

‏قبضہ گیر کے خلاف جنگ لڑنا فرض ہے اس کو اپنی زمین سے ہٹانا ہوگا آخر وہ کب تک ہم پے مسلط ہوا بیٹھا رہے گا۔ قبضہ گیر آج طاقتور ہے کبھی کمزور ہوگا نہیں تو ہم اس کو کمزور کریں گے اس کو شکست ہوگی شکست دیں گے۔ وہ آج ہمارے پہاڑوں پے پھرتے ہیں یہ ان کا حق نہیں ہے اس پے ہمارا حق ہے یہ ہماری زمین ہے ہم اس کے مالک ہے اور یہ جو قبضہ گیر ہے یہ یاد رکھیں یہ کہتے ہیں کہ ہمارے یہ فوجی شہید ہے، کیسے شہید ہو کسی کی سرزمین پے آکر قبضہ کرتے ہو وہاں کے باشندوں پے ظلم جبر کرتے ہو تو تم کہاں سے شہید ہو۔

 یہ آزادی کی جنگ ہے یہاں خون انقلابیوں کا ہے، ستر سالوں سے تم اس جذبے کو ختم نہیں کرسکے تم نے بچوں سے لے کر عورتوں تک جوانوں سے بوڑھوں تک کسی کو نہیں بخشا، ویرانوں میں لاشیں پھینکتے رہیں ہو تمہارے ٹارچر سیل بھرے ہوئے ہیں تم کمزور نہیں کرسکے تو آگے تم کیا کمزور کرو گے یا تم ختم کر سکو گے، ختم تو تم ہو رہے ہوں ڈر سے بھاگتے رہتے ہوں تم تو ہمارے پہاڑوں سے بھی ڈرتے ہو، پتھروں کو بھی معاف نہیں کرتے وہاں بھی شیلنگ کرتے ہو، درختوں سے بھی ڈرتے ہو ان کو جلا دیتے ہو اور تو اور ہمارے پانی سے بھی ڈرتے ہوں وہاں بھی زہر پھینکتے ہو۔ تو تم ہمارا مقابلہ کیسے کر پاوں گے۔ اس سرزمین پے انگریز کو شکست ہوئی کئی ایسے قبضہ گیروں کو شکست ہوئی تو تمہیں بھی ہوگی، یہ میرا ایمان ہے یہ بلوچ کی سرزمین ہے۔ یہاں سکندر اعظم نے شکست کھائی تو کیا چیز ہے جب بلوچ بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے خون میں بھی انقلاب کی لہر دوڑ رہی ہوتی ہے۔ اس کی ماں کے دودھ میں بھی انقلاب کی طاقت ہوتی ہے جو اس میں غیرت جگاتی رہتی ہے۔ وہ زمین کی مٹی سے کھیلتے رہے ہیں وہ مضبوطی اختیار کرتے رہتے ہیں ڈر تو وہ بچپن میں ہی مٹی میں پھینک دیتے ہیں ہزاروں جانیں قربان ہو رہی ہیں اور ہونگی، ہماری تو عورتیں بھی بہادری سے تمہارے سامنے کھڑی ہو جاتی ہیں، چیئرمین آفتاب جیسے نڈر اور ہزاروں بلوچ نوجوانوں فدائیوں کی قربانی کبھی بھی ضائع نہیں ہوگی وہ ایک دن انقلاب لائیں گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں