خواتین کی جبری گمشدگی کے واقعات: کوئٹہ و کراچی میں پریس کانفرنسز، احتجاج کا اعلان

693

کیچ اور کراچی سے خواتین کی گرفتاری و جبری گمشدگی کے خلاف ضلع کیچ میں لوگوں کا دھرنا اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ آج ضلع کیچ سمیت دیگر علاقوں میں شٹرڈاوں ہڑتال کے علاوہ بعض علاقوں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے جہاں لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کرکے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچ یکجہتی کمیٹی، بی ایس او پجار اور بلوچ وومن فورم کی طرف سے آج کراچی اور کوئٹہ میں ہنگامی بنیاد پہ پریس کانفرنسز بھی کیے گئے۔

پریس کانفرنس میں رہنماوں کا کہنا تھا کہ اس وقت پورا بلوچستان ایک سنگین انسانی بحران سے دوچار ہے. انسانی بحران اور ریاستی درندگی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب ہمارے خواتین بھی ان کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں ہے، ابھی حالیہ جبری گمشدگی کی لہر میں کہیں بلوچ خواتین کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا ہے اور ایک خاتون نور جان کو سی ٹی ڈی کی جانب سے دہشت گرد بھی قرار دیا گیا ہے.

انہوں نے کہا کہ پچھلے دنوں 16 مئی کو نور جان نامی خواتین کو تربت ہوشاب کے علاقے سے رات کے اندھیرے میں سی ٹی ڈی کی جانب سے جبری گمشدگی کا شکار بنا کر ان پر جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی اور نور جان تاحال پولیس کی ریمانڈ میں ہے. تربت کورٹ نے ان کی ضمانت بھی مسترد کر دی ہے اور اسی طرح حبیبہ پیر جان کو کراچی کے نیول کالونی سے سی ٹی ڈی کے ذریعے جبری طور پر گمشدگی کا شکار بنایا گیا ہے جو کہ تاحال لاپتہ ہے.

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں سیکورٹی ادارے والے جو کام ڈیتھ اسکواڈ یا اپنی ملٹری ونگ سے کروا رہے تھے آج کل وہی کام وہ سی ٹی ڈی کے ذریعے کروا رہے ہیں. اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کے نام پر ان تمام انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سیکورٹی ادارے ملوث ہیں اور سی ٹی ڈی ان کے بی ٹیم کے طور پر کام کر رہی ہے.

“ان جبری گمشدگیوں کو خاص کر خواتین کی جبری گمشدگیوں کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف ہم ہر فورم پر آواز اٹھاتے رہیں گے. اسی لیے آج ہم اس پریس کانفرنس کے توسط سے اعلان کرتے ہیں کہ کل یعنی 22 مئی کو صبح 12 بجے یونیورسٹی آف بلوچستان سے لے کر کوئٹہ پریس کلب تک ایک ریلی نکالی جائے گی. ہم بلوچستان کے عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ریلی میں شریک ہوکر انسان دوستی کا ثبوت دیں۔”

بلوچ یکجہتی کراچی کے رہنماوں نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہم آپ کو کراچی کے حالات سے متعارف کروانا چاہ رہے ہیں فقط کراچی نہیں تمام بلوچوں کے حالات سے چاہے وہ بلوچستان کی سرزمین ہو کہ کراچی میں بسنے والے بلوچ ہوں یا کہ کہیں اور بسنے والے بلوچ، ان تمام بلوچوں کی حالت چشم نم کردینے والی ہے۔ انہی تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آج بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کا پریس کانفرنس ہے۔ ہمارے لئے جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ہے یا جبراً اٹھا لینے کا سلسلہ آج کا نہیں ہے بلکہ اس سلسلے کو دس سال سے اوپر کا عرصہ حاصل ہے۔ اسی طرح سے عورتوں کو اٹھا لینے کا واقعہ بھی کوئی آج کا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ نورجان اور حبیبہ کے اس واقعہ نے ان تمام تر چیزوں کو ایک بار پھر دوہرایا ہے اس کے علاوہ کوئی فرق نہیں۔

بلوچ یکجہتی کراچی

انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے جبری گمشدگی کا شکار ہونے والوں کی تعداد روز بروز مزید تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور اسی بڑھتی ہوئی تعداد سے منسلک کراچی سے متعدد لڑکے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے ہیں جس میں بیشتر لڑکوں کا تعلق لیاری سے ہے۔ حال ہی میں ان لڑکوں میں وحید نامی ایک لڑکا جو کہ ابھی کالج کا طالب علم ہے اس کو اس کے گھر سے ساڑھے تین بجے کے قریب سادہ لباس پہنے کچھ لوگ رینجرز کے ساتھ جبری گمشدگی کا شکار بناتے ہیں۔ اسی طرح ایک بزرگ فٹبال کوچ عبدالرشید نامی ایک شخص جو کہ لیاری سنگولین کے رہائشی ہیں ان کو جبراً لاپتہ کیا گیا ہے۔ وہ لوگ جو اپنے دو وقت کی روٹی کے لئے روتے ہیں اور اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ایسے لوگوں کو بھی جبری گمشدگی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ ان واقعات سے پہلے بھی بہت سارے ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں جیسے سلطان بلوچ، لالا ارشد، محبت اس کے علاوہ شعیب بلوچ نامی ایک نوجوان جو کہ بائیس دنوں سے لاپتہ ہیں اسی طرح سعید عمر نامی ایک نوجوان جو کہ روس سے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد آئے تھے اور ان کو بھی کراچی سے جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔
انہوں نے سوال کیا کہ کن ثبوتوں کی بنیاد پر ان تمام عوامل کو کیا جا رہا ہے۔ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے ہمارے لاپتہ کیے جانے والے لوگوں کے خلاف تو ان کو اپنے بنائے ہوئے عدالتوں میں پیش کریں اس طرح سے اپنے بنائے ہوئے قانون اور اپنے بنائے ہوئے اذیت گاہوں کی نظر نہ کریں۔

دوسری جانب عدالت نے نورجان بلوچ کی ضمانت پر فیصلہ پیر تک موخر کردیا ہیں۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی نے ہوشاپ سے لاپتہ کیے گئے خاتون نورجہان بلوچ کی درخواست ضمانت پر آج فیصلہ دینے کی بجائے اسے پیر تک موخر کردیا ہے۔

کل نورجان بلوچ کے وکلا نے عدالت کے سامنے اپنے دلائل مکمل کئے تھے اور عدالت نے درخواست ضمانت پر فیصلہ آج ہفتے کے لیے مقرر کیا تھا تاہم آج بھی کیس کا فیصلہ نہ ہوسکا اور عدالت نے نورجان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ پیر تک موخر کردیا ہے۔