آزادی ہر بلوچ کیلئے – بیبرگ بلوچ

836

آزادی ہر بلوچ کیلئے

تحریر: بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ جہد آزادی سے واقفیت 2005 سے ہوگئی تھی پھر 2010 میں ایک بلوچ طالب علم کی حیثیت سے بی ایس او آزاد کے نرسری میں میرے نظریات نے تقویت اور نشونما پائی۔ خیر جو بی ایس او آزاد کے ساتھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ چئیرمین زاہد کرد سے آخری ملاقات 2011 میں ہوئی اور اس کے بعد سے بی ایس او آزاد کے کسی ذمہ دار سے تنطیمی ملاقات نہیں ہوئی البتہ اس دوران بی ایس او آزاد میں جن سے جان پہچان ہوئی آج بھی ان سے سنگتی اور حال احوال ہے۔ اس سنگتی کی بنیاد آج بھی بلوچ نظریہ آزادی ہے تو جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے تو اس نظریہ آزادی کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستگی محسوس ہوتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک مجلس میں کسی دوست نے کہا کہ آپ نظریاتی طور پر سرنڈر ہوچکے ہیں۔ اسی وقت میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ پچھلے پندرہ سالوں سے بلوچستان کے آزادی کے خواب لئے بیٹھے ہیں تو یہ نظریہ کیسے سرنڈر ہوسکتا ہے؟

خدا انکی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہے تو اس پر سوچ کر شاید مجھ جیسے خاموش بلوچ ایک بار پھر سے جدوجہد آزادی کے لیے کردار ادا کرنے کا سوچتا ہے ۔ اپنی جدوجہد کو میں اس تحریر سے شروع کر رہا ہوں اگر چہ میں اچھا لکھاری نہیں۔

بقول استاد اسلم بلوچ کہ بلوچوں کو یہ فرق نہیں پڑتا کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے بلکہ بلوچ کو اس سے فرق پڑ تا ہے کہ وہ خود اپنے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ آج جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو میں سمجھ رہا ہوں کہ بلوچ تحریک آزادی بلکل درست سمت میں آگے بڑھ رہا ہیں اور انشاءاللہ ہم یا ہماری آنے والی نسلیں ایک دن آزاد بلوچستان دیکھ سکیں گے۔ اس تحریر میں کچھ سوالات کے جوابات دینا چاہونگا جو عام بلوچوں کے ذہنوں میں ہونگے۔

کیا بلوچ جہد آزادی درست ہاتھوں میں ہے؟

ریفئنمنٹ (Refinement) کا مطلب مرحلہ وار درستگی کرنا۔ اور بلوچ جہد آزادی شروع ہی سے ریفئنمنٹ سے گزر رہا ہے اور اس میں سے کمزور یاں ہر گزرتے دن کے ساتھ ختم ہو رہی ہیں اور یہ ایک مضبوط درخت کی مانند ہو تی جارہی ہے اور ساتھ ساتھ اس کی کمان بھی ریفئن ہورہی ہے اور اب یہ یورپ میں مقیم بلوچ سیاست دانوں اور سرداروں کے ہاتھوں سے نکل کر گرونڈ لیول پر موجود بلوچوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ہاں کچھ تنظیمیں اب بھی بیرون ملک موجود بلوچ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہے لیکن انکا اثر رسوخ محدود ہے لیکن انکی بھی جدوجہد سے بھی بلوچ قوم کو انکاری نہیں ہونا چاہیئے۔

اور ان گروہوں کو بھی باقی گرونڈ لیول پر مضبوط تنظیموں کی قدر کرنی چاہئے۔ تو جی بلوچ جہد آزادی میں سرگرم گرونڈ لیول پر مضبوط تنظیمیں درست ہاتھوں میں ہیں۔

کیا بی ایل اے مجید برگیڈ کی کارروائیاں جائز ہیں؟

آپ کو سب پاکستانی بشمول پاکستان پسند بلوچ یہ کہنگے کہ یہ غلط ہیں لیکن یاد رکھیں پیار اور جنگ میں سب جائز ہے اور بلوچ کا دشمن تو ایک غیر مہذب اور بے تاریخ و تخلیق کردہ ملک ہے۔ پاکستان کا لیفٹیسٹ بھی بلوچ جہد آزادی کو غلط کہتا ہے لیکن اس کے نزدیک ویتنام کی جنگ آزادی جائز تھی۔ لیکن بلوچ کو ان باتوں سے فرق نہیں پڑنا چاہیے۔

کیا سب بلوچ آزادی چاہتے ہیں؟

ایک دوست سے کسی نے سوال کیا کہ تم بلوچستان کی آزادی چاہتے ہو تو اس نے کہا کہ اختر مینگل سے بھی یہ سوال کیا جائے تو وہ بھی کہے گا کہ کون آزادی نہیں چاہےگا۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر مالک اور اسد بلوچ بھی اس سوال پر آزادی کے حق میں ہونگے پر پاکستان کے سامنے منہ سے نہیں کہہ سکتے ہونگے۔ ہر بلوچ آزاد بلوچستان دیکھنا چاہتا ہیں اور ایک آزاد بلوچستان میں مرنا چاہتا ہے۔ البتہ میں ضمیر فروش بلوچوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

کیا بلوچ جہد آزادی ساحل وسائل کے لیے ہے؟
اگر بلوچ کے پاس نہ گوادر نہ سیندک نہ ریکوڈک نہ گیس نہ تیل کچھ بھی نہ ہوتا بلکہ صاف دشت میدان ہوتا تب بلوچ آزادی کے لیے لڑ تا کیونکہ بلوچ قوم کی تشخص اور بقاہ صرف آزادی میں ہے۔ تو یہ تصور کرنا کہ ہمیں بجلی گیس گوادر یہ تعلیم چاہیے اور ہم خوش رہنگے تو یہ خام خیالی ہوگی کیونکہ جو بھی ملے رہوگے غلام اور غلامی کا درد موت سے بڑا ہے۔ اور یقین کریں پاکستان جو جھوٹی تعلیم بلوچوں کو دے رہا ہے اسکی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں۔

کیا آزادی کے بعد بلوچ کی زندگی اور حالت درست ہوگی؟
اسکا جواب آپ خود ایک مثبت خواب کی طرح اندازہ لگائیں، آپ ایک آزاد بلوچستان میں ہونگے جہاں کے مالک آپ ہونگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں